سال قبل برصغیر ہندو پاک ظلمت اور گمراہی کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ہر طرف کفر و شرک اور بت پرستی کا دوردورہ تھا۔ انسانیت مختلف امتیازات کے دائروں میں بٹی ہوئی تھی۔ کسی کو دیوتائوں کسی کو برہمنوں کی نسل سے ہونے کا گھمنڈ تھا۔ ایک ہی نسل خود کو بہت معزز اور دوسروں کو حقیر سمجھتی تھی۔ اور ایک اللہ کا نام لیوا شاید ہی کوئی تھا اور مشرکین مکہ جیسا دَور نظر آتا تھا۔ ایسے پرآشوب دَور میں اللہ تعالیٰ نے اس بھٹکی ہوئی نسل کی اصلاح اور رہنمائی اور اپنے دینِ حق کی اشاعت کے لئے ایک ایسی ہستی کو بھیجا جس کا اصل نام حسن اور لقب معین الدین تھا۔ باپ کا نام غیاث الدین تھا۔ 14 رجب 537ھ بمطابق 1142ء قصبہ سنجرشہر سجستان میں پیدا ہوئے۔ 12 سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ابتدائی دینی تعلیم خراسان میں حاصل کی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ایک باغ اور ایک پن چکی وراثت میں ملی۔ ایک دن اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ ایک بزرگ عالم دین شیخ ابراہیم قندازی ؒ کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپؒ نے اُن کی خاطر تواضع کی۔ شیخ ابراہیم قندازی ؒنے ان کے لئے دعا کی اور آپؒ پر انوار الہیٰ جلوہ گر ہو گئے۔ اس کے بعد آپؒ کا کام کاج میں جی نہ لگا اور تمام جائیداد فروخت کر کے غریبوں میں تقسیم کر دی اور سمر قند تشریف لے گئے۔ وہاں قرآن پاک حفظ کیا اور تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اور علوم متداولہ سے فارغ ہونے کے بعد نیشا پور کے ایک قصبے ہارون آباد میں جا کر خواجہ عثمان ہارونی ؒ سے باطنی فیض حاصل کیا۔ اور خرقئہ خلافت حاصل کیا۔ خواجہؒ کی معیت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر کے اُن سے اجازت لے کر اُس وقت کے بزرگانِ دین سے فیض حاصل کرنے کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں سید عبدالقادر جیلانی ؒ ۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ۔ شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ اور اوحد الدین کرمانی ؒ جیسے اولیائے کرام کی صحبت سے فیضیاب ہو کر ہمدان۔ تبریز۔ سبزوار۔ استر آباد۔ بلخ۔ ہرات اور غزنی سے ہوتے ہوئے تبلیغی مشن پر ہندوستان کے مشہور شہر لاہور پہنچے۔ اس وقت سید علی ہجویری ؒ کاانتقال ہو چکا تھا۔ ان کے مزار پر چلہ کشی کی اور یہ شعر پڑھا "گنج شکر فیض عالم مظہر نورِ خدا۔ ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما"۔ کچھ عرصہ لاہور میں قیام کرنے کے بعد ملتان تشریف لے گئے اور کافی عرصہ تک وہاں رہے۔ اس دوران ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں بشمول ہندی پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ اور 561ھ میں اپنے مریدوں کو ساتھ لے کر پہلے دہلی اور پھر اجمیر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر مکمل سکونت اختیار کر لی۔ اس وقت ہندوستان پر کفر و شرک کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جب آپؒ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے دینِ حق قبول کر کے مسلمان ہونا شروع کر دیا۔ اُس وقت کے دہلی اور اجمیر کے حکمران پرتھوی راج کو یہ ہر گز گوارا نہ تھا ۔ چنانچہ اُس نے ہر حربہ استعمال کر کے آپ کو اشاعت دینِ حق سے روکنے کی کوشش کی۔ اللہ کی طرف سے نصرت آن پہنچی اور شہاب الدین محمد غوری نے حملہ کر دیا۔ پہلی دفعہ تو کامیابی حاصل نہ ہو سکی البتہ دوسرے معرکے میں کامیاب ہو گیا۔ اور 588ھ بمطابق 1192ء میں دہلی اور اجمیر کو فتح کیا۔ پتھورا گرفتار ہو کر مارا گیا اور دہلی اور اجمیر پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے پوری زندگی دین کی خدمت اور تبلیغ میں گزار دی۔ آپؒ کو اولیاء کرام میں بلند ترین مرتبہ حاصل ہے۔آپؒ سلسلہ چشتیہ کے بانی تھے۔ آپؒ نے لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ آپؒ سے حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ ۔ شیخ کبریاؒ اور شیخ فرید الدین گنج شکرؒ نے براہ راست فیض حاصل کیا تھا۔ آپؒ کے بارے میں جو مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں اُن میں آپؒ کی تعلیما ت کی بجائے کرامات کا ذکر زیادہ پایا جاتا ہے۔ حالانکہ آپؒ کے سامنے سب سے بڑا مشن تبلیغِ دین تھا جس میں حد درجہ کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ ہندوستان میں آپؒ ہی کی تبلیغ سے کفر و جہالت کی جگہ اسلام اور ایمان کی روشنی پھیلی۔ یہ اُنہی کا سرچشمہ فیض تھا کہ جس جگہ بھی پہنچے بستیوں کی بستیاں اسلام کے نور سے مالا مال ہو گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دلوں کو پھیر کر ایمان کی روشنی سے بھرنا سب سے بڑا معجزہ اور کرامت ہے۔آپؒ کے چند اقوال زرین یہ ہیں۔بھوکے کو کھانا کھلانا۔حاجت مند کی حاجت روائی کرنا۔دشمن کے ساتھ اچھا سلوک کرنانفس کی زینت ہے۔شقاوت اور بدبختی یہ ہے کہ انسان گناہ کرے پھر یہ سمجھے کہ میں مقبول ہو جائوں گا۔جس نے کچھ پایا محنت اور خدمت سے پایا۔اپنے تبلیغی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر 6 رجب 633ھ بمطابق 1225ء سو سال کی عمرمیں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے ملفوظات کے مختلف مجموعے موجود ہیں۔ آپ ایک صوفی شاعر تھے اور تقریباً 8 ہزار اشعار کہے تھے۔ نہ صرف آپؒ کی تبلیغ اور فیض سے کفر کے بادل چھٹ گئے اور غیر مسلموں نے حلقہ بگوش اسلام ہونا شروع کر دیا تھا بلکہ آپؒ کی صاحبزادی کی تبلیغ سے بھی بہت سی ہندو عورتیں مسلمان ہو گئی تھیں۔ آپؒ نے اجمیر میں مسجد او ر مدرسہ تعمیر کرا کے درس و تدریس کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ آپؒ کا شماربھی ان صوفیائے کرام میں ہوتا ہے جن کے سرچشمہ فیض سے غیر مسلم دینِ حق کی آغوش میں آ گئے تھے۔