مکرمی! دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اپنی تشہیری مہم چلاتی ہیں۔ اپنی کارکردگی کو جلی حروف میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ انتخابی منشور اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کی حصول پذیرائی کیلئے نت نئے طریقوں سے عوام کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ پراپیگنڈا مہم کو جاذب نظر بنانے کے لئے سچ میں جھوٹ کی بے بہا آمیزش کی جاتی ہے۔ اس طرح سے اپنی سیاسی مقبولیت کی عوام پر دھاک بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پراپیگنڈا مہم پر اربوں روپے پانی کی طرح بہا دیئے جاتے ہیں کچھ یہی حال پاکستان کی سیاست کا بھی ہے۔ یہاں کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے عملی طور پر کچھ نہ کرکے سب کچھ کرنے کے راگ الاپنا‘ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے ان کا الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈالنا‘ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے نت نئی ترکیبوں کا استعمال ‘ عوام کی دارسی کی بجائے اپنے رشتوں اور ناتوں کو اداروں سے مضبوط اور مربوط کرنے کا جنون مخالفین پر لعن طعن اور بے جا الزام تراشیوں کے ذریعہ پوائنٹ اسکورنگ کرنا‘ سچائی کی رمق کو جھوٹ کے سیلاب میں غوطے لگوا کر پراپیگنڈا کی صورت میں میڈیا کے سامنے پیش کرنا‘ اپنے گندے اور تار تار دامن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک صاف اور اجلا دکھانا‘ فرشتوں کا روپ دھار کر شیطانیت کے کرتوتوں کو پروان چڑھانا‘ اپنی معیشت اور سلامتی کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور سپر طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ناکامیوں کو بھی انتہائی ڈھٹائی سے کامیابیوں کے خول میں مزین کرکے میڈیا کی نذر کرنا یہ ہے پاکستان کی سیاست جس کی تشہیر سرگرمیوں کی تشہیر پراپیگنڈا کی صورت میں مراعات یافتہ اور بھاری بھرکم تنخواہ دار ترجمانوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ یہاں پہ تعمیرکو سیاست کی جھلک کہیں۔ دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ ذاتی مفادات کی جنگ ہے جو الیکشن پر پارٹیاں بدل بدل کر لی جا رہی ہے۔ سیاست کاروبار کی شکل اختیارکر چکی ہے۔ نجانے ہمارے ملک میں حقیقی معنوں میں سیاستدانوں میں خود احتسابی کا عمل کب شروع ہوگا تاکہ ملک ترقی کی صحیح سمت میں گامزن ہو۔( رانا ارشد علی اے سیاسیاست و معاشیات گجرات)