دہشت، خوف ، ہراس اور دکھ یہ تمام الفاظ خوف کی علامت ہیں اور یہ تمام الفاظ پاکستان میں آئے دن عوام پر مسلط کئے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ اُس دہشت ، خوف ،دکھ میںمبتلا رہ کر اگلے دکھ ،خوف اور دہشت کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے۔ سانحہ مری ہو یا کچھ عرصہ پہلے سیالکوٹ میں سری لنکن کے بے رحمانہ قتل جیسا سانحہ ،اُن سانحات کی کڑی ہی پاکستان میں عرصہ دراز میں پاکستانی قوم دیکھ اور برداشت کر رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے شروعات اچھی اور خوشگوار ہو تو خوشیاں منزلوں کو آسان اور خوشیوں سے بھرپور بنا دیتی ہیں ۔لیکن پاکستان کے آغاز کو خون سے نہلا دیا ۔ 1947 میںجب قیام پاکستان کا اعلان ہوا اُس کے ساتھ ہی ہندوستان کے طول وعرض خاص کرپنجاب کے ہریالی کو مسلمانوں کے خون سے سرخ کردیا۔یہی وہ ابتدا تھی جس نے پاکستان کی سرزمین کو ہمیشہ خون سے تر ہی رکھا اور آج 74 سالوں بعد بھی اِس سر زمین پر نا حق خون بہے جا رہا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظام ایسا ہوتا کہ خون کا بہنا دریا میں تبدیل ہوتا تو پاکستان کے ہر حصے میں خون کے دریا بہہ رہے ہوتے۔خون بہتا نہیں جم کر مٹی میں جذب ہو جاتا ہے شاید اِسی لئے مٹی میں ملا خون قوم کو یاد نہیں رہتا سوائے اُس دن کی مناسبت کے حوالے سے جس دن وہ سانحہ ہوا ہوتا ہے۔ یوں تو خون آلودہ زخم اِس سرزمین کے نقش پرتازہ رہتے ہیں۔ اور تازہ بھی کیوں نہ رہیں کہ ہر زخم پر نیا زخم جو لگ جاتا ہے اور اب یہ زخم ناسور بن چکے ہیں۔لیکن ایک تجربہ ہی کامیاب ہوا جو پاکستانی عوام کے من پسند ہوا اور وہ تجربہ28-05-1998 کو اٹیمی دھماکوں کا تجربہ جس کی وجہ میں سے آج ہم دنیا کی ساتویں اٹیمی قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔قیام پاکستان سے قبل قائداعظم نے اِس اسلامی مملکت کو ایک تجربہ گاہ سے تشبیہ دی تھی کہ یہاں اسلام کے زیر سایہ اور اسلام کے اُصولوں کے مطابق جدید مملکت بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اور واقعی اِسے تجربہ گاہ ہی بنادیا گیا ہر دشمن نے اپنے اپنے مفادات اور اپنے اپنے انداز میں یہاں ہر وہ تجربہ کیا گیا جو کسی مملکت کی سا لمیت کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتابلکہ نقصان دہ ہوتاہے۔ کبھی یہاں صوبائیت،کبھی لسانی ،کبھی فرقہ وارنہ ،یہاں تک کے مذہبی انتہا پسندی کو اِس ملک پر مسلط کرنے کی بھرپور کوششوںاورتجربوں نے یہاں کے امن و امان کو غارت کرنے کیلئے کہیں بم دھماکے، توکہیں براہ راست فائرنگ سے انسانی جانوںکو اُڑایا، تو کہیںبوری بند لاشیںبھی یہاں سر راہ ملتی رہیں اور ہر تجربے میں پاکستانیوں کے جان ومال کی قربانیوں میں خون سے یہ سر زمین سرخ ہوتی رہی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار اتنے قتل عام اور نقصانات کے باوجود اِ س ملک کی سا لمیت کوقائم رکھا اورانشاء اللہ قائم رکھے گا۔پاکستان کی سر زمین اور عوام نے ناصرف انڈیا کی نفرت آمیز دشمنی ہی نہیں بلکہ دنیا کی سُپر پاورز کے اختلافات میں بھی اپنے نقصانات کروائے ۔ روس اور افغان جنگ میں جو قیمت پاکستان نے چُکائی ہے بلکہ آج تک چُکا رہا ہے ۔افغان سر زمین کوپاکستان کے ہر دشمن نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے بھارت ہو یا امریکہ اور خود افغان حکومت نے بھی اپنی ہر تباہی کا بدلہ پاکستان سے لیا ۔اگر یہ کہا جائے کہ جنتی احسان فراموشی افغانیوں نے پاکستان کے لئے دکھائی شاید ہی دنیا کی کسی قوم نے دکھائی ہو ۔پاکستان نے دوسروں کے جھگڑوں میں ٹھوکریں کھائیں ہیں تو دوسری طرف مذہبی جنونیت نے بھی اِس تجربہ گاہ میں خوب تجربے کئے ہیں۔
پھر روس افغان جنگ کے بعد تو مذہبی جنونیت کی ایسی یلغار آئی کہ آج تک سنبھالے سنبھل ہی نہیں رہی۔ اُسی یلغار میںجنت کے متوالے بھی اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر خودکش بم باز ی کے رواج کو تقویت دی اور اپنے مخالف مذہبی گروہ کے خلاف استعمال ہونے لگے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان کے حصے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے دشمن آئے ہیں ۔ اسے پاکستان کی بد قسمتی کہہ لیں کہ صفِ اول کا ازلی دشمن بھارت جیسا دشمن ہمسائے میں بیٹھا ہے ۔بھارت کی سازشیں صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں صوبائیت کا زہریلا بیج بونے کی کوشش کے علاوہ صوبہ سندھ میں لسانی، فرقہ واریت کے وار وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہے۔ یہاں صرف دشمنوں کے اہداف ہی پورے نہیں ہوئے بلکہ یہاں پاکستانی حکومتیں بھی ورلڈ بنک، آئی ایم ایف کے قرضے لینے کے تجربوںمیں بھی عوام کو مہنگائی کی یلغارمیں دھکیل کر پاکستانی قوم کا خون چوسنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں بیٹھے پاکستان کے دشمن سیاستدان بھی اس ملک کے خزانوں کی گنگا میں آشنان کرتے نظر آتے ہیں۔
کب تک یہ سلسلہ چلے گا کوئی پاکستانی نہیں جانتا؟ کب اس ملک میں مثبت تجربے ہوں گے؟ کب ہم وہ مقاصد حاصل کر سکیں گے جن کے لیے یہ ملک حاصل ہواتھا؟ کسی کو معلوم نہیں۔