کراچی(نیوز رپورٹر) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ ہم نے پیپلز پارٹی کو 27 جنوری کو جو مسودہ مطالبات کا پیش کیا ہے وہ من و عن سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ عوام کے کھڑے ہونے کا ہی ثمر ہے کہ اس طرح کے فیصلے جو سالوں سے محفوظ تھے عوام کیلئے جاری ہونا شروع ہوگئے۔ اربوں روپے کا سالانہ فنڈ کہاں جارہا ہے کوئی صوبائی حکومت سے نہیں پوچھ سکتا عوامی مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے، وزیر اعلی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 1200 ارب روپے صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ کو منتقل کرنے کا فارمولا واضح کریں۔ سندھ میں 2021 کا کالا قانون اس وقت بھی نافذ العمل ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر کب عملدر آمد ہوگا، کسی کو کچھ پتہ نہیں، سندھ حکومت فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائرکریگی جسکے مسترد ہونے تک یہی کالا قانون چلے گا۔ وزیراعلی ہاس سے اختیارات گلی کوچوں تک پہنچنے چاہیں، سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کیس میں خود کمیٹی قائم کی تھی، اس کیس میں سپریم کورٹ نے ہر ہفتے پیشرفت رپورٹ مانگی تھی، سپریم کورٹ بلدیاتی ایکٹ کا فیصلہ 3 ماہ پہلے دے دیتی تو چیف جسٹس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر رپورٹ مانگتے، اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فوارہ چوک پر دھرنے کے پانچویں روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر پی ایس پی انیس قائم خانی سمیت اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل اور کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ وفاق ایک ہزار ارب روپے سندھ حکومت کو دیتا ہے مزید سندھ حکومت 200 ارب ٹیکس کی مد میں جمع کرتی ہے، وفاق پیسے صوبوں کو تقسیم کر دیتا ہے، صوبوں سے پیسہ نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوتا۔ اب ملک اس طرح سے نہیں چل سکتا۔ سندھ حکومت ہماری بات سن رہی ہے تیسرے درجے کی حکومت کومالیاتی اختیارات دینے ہوں گے اگر ایسا نہ ہوا تو اٹھارہویں ترمیم رول بیک ہو جائے گی۔