سیّد ارتقاء احمد زیدی
ارتقاء نامہ…
یہ 1990ء کی دہائی کا واقعہ ہے۔ میں پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیف کے طور پر تعینات تھا۔پلاننگ کمیشن کے ایک سیکشن میں ڈپٹی چیف کی آسامی بذریعہ ایف پی ایس سی انٹرویو پر ہونی تھی۔ پوسٹ کا اشتہار اخبار میں چھپا چونکہ اس پوسٹ کے لئے مخصوص تجربہ لازمی تھا اس لئے صرف دو افرا د انٹرویو کے لئے چُنے گئے۔اسلام آباد میں ایف پی ایس سی (FPSC) کے دفتر میں ساڑھے گیارہ بجے انٹرویو ہونا تھا۔ ان دو اُمیدواروں میں سے ایک پشاور میں رہتا تھا۔ اس لئے وہ صبح ساڑھے سات بجے اپنی گاڑی میں اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ پشاور سے اسلام آباد کا بذریعہ سڑک فاصلہ 187کلو میٹر ہے اور سفر کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے ہے۔ اس لئے دس بجے اسلام آباد پہنچنے کے بعد باآسانی انٹرویو سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایف پی ایس سی کے دفر پہنچا جا سکتا تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ اٹک کے پل پر اس اُمیدوار کی گاڑی کو ٹریفک پولیس نے روک لیا جبکہ اسلام آباد تک کا سفر ایک گھنٹے کا رہ گیا تھا۔ امیدوار نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ انہیں خفیہ اداروں سے اطلاع ملی ہے کہ اس گاڑی میں منشیات سمگل کی جارہی ہیں۔ اس لئے گاڑی کی تلاشی لینا ہوگی۔ اُمیدوارنے اپنا تعارف کرایا کہ وہ اٹھارہ گریڈ کا صوبائی حکومت کا آفیسر ہے اور وفاقی حکومت کی 19 گریڈ کی آسامی کے انٹرویو کے لئے اسلام آباد جا رہاہے اور ساڑھے گیارہ بجے انٹرویو کے لئے ایف پی ایس سی کے دفر پہنچنا ہے۔ ٹریفک پولیس کے افسر نے بہت احترام سے کہا ’’سر ہماری مجبوری ہے آپ بُرا نہ منائیں اور گاڑی سے باہر آجائیں تاکہ ہم اطمینان سے گاڑی کی تلاشی لے سکیں‘‘۔
مجبوراً اُمیدوار کو گاڑی سے باہر آنا پڑا اور اس نے ٹریفک پولیس کے آفیسر سے درخواست کی کہ وہ جو بھی کارروائی کریں جلدی کریں تاکہ وہ وقت پر انٹرویو میں پہنچ سکے۔ ٹریفک پولیس کے آفیسر نے خوش اخلاقی سے جواب دیا کہ اسے احساس ہے کہ انہیں جلد ا ز جلد اسلام آباد پہنچنا ہے۔ اس لئے غیر ضروری تاخیر نہیں کی جائے گی اور تمام کارروائی قانون کے دائرے میںرہ کر کی جائے گی۔
ٹریفک پولیس نے گاڑی کی تلاشی لینے کے بعداس کے انجن کی تلاشی لینی شروع کر دی۔ کاربوریٹر۔فین اور ریڈئیٹر کھولنا شروع کر دیئے کہ کہیں ان میں منشیا ت تو نہیں چھپائی گئی ہیں۔ اَب اُمیدوار کو شک گزرا کہ ٹریفک پولیس جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے انٹرویو میں پہنچنے سے روک رہی ہے۔ اُمیدوار نے کہا کہ اگر وہ انٹرویو میں نہ پہنچ سکا تو اس کا بڑا نقصان ہو جائے گا کیونکہ وہ جس پوسٹ کے لئے انٹرویو دینے جا رہا ہے۔ اس کے لئے اس کی قابلیت اور اہلیت کی بنا پر اور اس بنا پر کہ اس پوسٹ کے لئے صرف دو اُمیدوار ہیں۔ اسے یقین ہے کہ اس کا گریڈ 19 کی اس آسامی پر تقرر ہو جائے گا۔ اس لئے وہ اسے جلد از جلد ا سلام آباد روانہ ہونے کی اجازت دے دیں۔ ٹریفک پولیس نے اُمیدوار کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جب کافی وقت گزر گیا تو اُمیدوار نے ٹریفک پولیس سے کہا کہ وہ اپنے انچارج یا کسی سینئر آفیسر سے فون پر بات کرادیں تاکہ وہ اسے قائل کر سکے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر اسلام آباد جانے دیا جائے۔ ٹریفک پولس کے کارندوں نے سنی ان سنی کر دی اور 11 بجے تک اُمیدوار کو روک کر اسلام آباد روانہ ہونے کی اجازت دے دی اور رسمی طور پر معذرت کر لی کہ اس کی گاڑی میں منشیات لے جانے کی خفیہ اطلاع درست نہیں تھی۔
اٹک پل سے اسلام آباد پہنچنے کے لئے ایک گھنٹہ درکار تھا۔ پھر بھی اُمیدوار نے اس اُمید پر کوشش کی کہ شاید انٹرویو کسی وجہ سے لیٹ ہوگئے تو اسے انٹرویو دینے کا موقع مل جائے۔ سوا بارہ بجے ایف پی ایس سی کے آفس پہنچ گیا۔ لیکن انٹرویو ختم ہو چکے تھے کیونکہ اس آسامی کے لئے واحد اُمیدوار انٹرویو دے کر جا چکا تھا۔ اس کا انتخاب سو فید یقینی تھا کیونکہ اس کے مقابلے پر کوئی اور اُمیدوار انٹرویو کے لئے موجود نہیں تھا۔اُمیدوار نے واپس پشاور کا سفر شروع کیا اور شام تک واپس گھر پہنچ گیا۔ اس کے والد ایک محکمہ کے سربراہ تھے اور بیوروکریسی میں بڑا اثر ورسوخ رکھتے تھے۔ انہوں نے اس واقعہ پر اپنے ذرائع سے تفتیش کرائی تو بات وہی نکلی جس کا خدشہ تھا۔ اس آسامی کے لئے دوسرا اُمیدوار جو اسلام آباد میں ہی 18 گریڈ میں تعینات تھا اس نے اس سازش کا تانا بانا بُنا اور اپنے والد کے تعلقات سے فائدہ اُٹھا کر ٹریفک پولیس کو استعمال کیا کہ پشاور سے آنے والے اُمیدوار کو اٹک پل پر کسی نہ کسی بہانہ سے اتنے عرصے کے لئے روک لیا جائے تاکہ وہ انٹرویو نہ دے سکے۔
لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ ہوایوں کہ ایک ماہ بعد گریڈ 19 کی ایک اور آسامی ایف پی ایس سی نے مشتہر کی۔ یہ پوسٹ کئی لحاظ سے بہتر تھی اور مستقل نوعیت کی آسامی تھی۔ اس پر اُمیدوار بھی کافی تعداد میں تھے لیکن ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ پشاور سے اسلا م آباد انٹرویو والے دن روانہ ہونے کی بجائے وہ اُمیدوار ایک رات پہلے ہی اسلام آباد پہنچ گیا اور انٹرویو میں کامیابی کے بعد 19 گریڈ کی آسامی پر تعینات ہوگیا۔ اس واقعہ کے صرف تین ماہ بعد نئے مالی سال میں پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیف کی وہ پوسٹ جس پر اسلام آباد والا اُمیدوار پشاور سے آنے والے اُمیدوار کا اٹک پل پر راستہ رکوا کر کامیاب ہوا تھا عارضی آسامی ہونے کی بنا پر ختم ہوگئی اور وہ کئی سال تک مختلف محکموں میں انٹرویو دیتا رہا لیکن کامیابی نہ ہوئی اور بے روزگار ہوگیا جبکہ جس اُمیدوار کا اس نے حق مارا تھا وہ ترقی کرتے کرتے 21 گریڈ تک پہنچ گیا۔