لبنیٰ صفدر
گزشتہ دنوں پورے پنجاب اور انڈین پنجاب میں لوھڑی کا تہوار سابقہ روایات کے مطابق منایا گیا، یہ کالم گزشتہ سے پیوستہ ہے، لوھڑی کے حوالے سے کالم لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اس تہوار سے منسلک ہیرو دْلاّ بھٹی کے بارے میں ایک الگ کالم کی ضرورت ہے، تقریبا چار صدیوں سے دْلاّ بھٹی کا نام اور شہرت ماضی کی طرح قائم ودائم ہے، پنجاب نے سینکڑوں ہزاروں بہادروں، سپوتوں کو جنم دیا جن میں دْلاّ بھٹی کا نام واضح نظر آتا ہے، دْنیا بھر میںمختلف تحریکوں نے جنم لیا، پنجاب کاماضی بھی ان تحریکوں سے بھرا ہوا ہے، یہ تحریکیں علامت ہیں نظام سے ، ظلم سے بغاوت کی، سرزمین پنجاب پر ہمیشہ مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا، اسی لئے انقلابی مزاحمت کے حوالے سے پنجاب اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے، پنجاب کی ثقافت کا اپنا رنگ بھی ہے اپنی شناخت بھی اور اپنی ایک تاریخ بھی ہے، جن عظیم لوگوں نے ظلم وجبر اور تشدد کے خلاف ببانگ دھل اعلان جنگ کیا ، اپنی زندگی پر دوسروں کی زندگی ، اپنے نفع پر دوسروں کے نفع کو فوقیت دی ان میں نمایاں نام دْلاّ بھٹی کا ہے، رنگ ونسل اور ذات پات کی سوچ سے بے پرواہ ہوکر ہر مظلوم کے لئے علم بغاوت بلند کیا، ساندل بار کا علاقہ دوآبہ رچنا کے جنوبی حصہ لوئر باری دوآب سے گوجرانوالہ، شیخوپورہ، ننکانہ، جڑانوالہ، حافظ آباد، چنیوٹ ، فیصل آباد کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے، پنجاب میں مغل حکمرانوں کاایک عرصہ تک تسلط رہا، مغل حکمرانوں کے ادوار کو بھی خوشحالی کا دور نہیں کہا جاسکتا، زراعت کو فروغ نہ مل سکا، لہٰذا کسان صرف اپنی ضرورت کے لئے ہی اناج پیدا کرتے تھے، مغل حملہ آور فصلوں اور چراگاہوں کو اْجاڑ دیا کرتے تھے، لوٹ مار مچاتے اور وہیں اناج بھی لوٹ کرلے جایا کرتے تھے، جابرانہ نظام میں کسی کو زبان تک کھولنے کی اجازت نہ تھی، احتجاج کرنے والے کو قتل کردیا جاتا حتیٰ کہ آبادیوں کو آگ لگا دی جاتی، دْلاّ بھٹی کی پیدائش اسی علاقہ میں 1574ء میں پنڈی بھٹیاں سے چند کوس دور دریائے چناب کے کنارے چوچک کے قریب بدر کے مقام پر ہوئی، لہٰذا پنڈی بھٹیاں کو دْلاّ بھٹی کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے، دْلاّ بھٹی کو دلیری وراثت میں ملی تھی، اس کا دادا بجلی خان ساندل اور باپ فرید خان بھی مغلوں کے ساتھ غداری کے جرم میں سزائے موت پاچکے تھے، ڈر انے کی بجائے بہادر خان نے دْلاّ بھٹی کی پرورش بھی اسی نہج پر کرنا شروع کردی، دلیری اس کے خون میں شامل تھی، کسانوں کے استحصال اور مغلوں کے مظالم نے دْلاّ بھٹی کے اندر غصہ اور انتقام کو بھڑکا دیا تھا، لہذا اس نے وسطی پنجاب میں مزاحمت کی تاریخ کا اعلان کردیا ، اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے اور اردگرد کے علاقے کے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کردیا اور اپنی جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے لگا اس تحریک نے اپنی پہلی کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھا، علاقے میں اتنا تسلط بنا لیا کہ اب مغلوں کا کوئی کاررواں اس علاقے سے نہ گزر سکتا تھا، دراصل یہ کسانوں کی تحریک تھی، تنگی وغربت میں زندگی گزارنے والے کسان کی زندگی انتہائی مشکل کا شکار تھی۔دوسری طرف مغلوں کے طرز زندگی اور عیاشیوں کی داستانوں سے کون واقف نہیں، ویسے مجھے لگتا ہے کہ ہم ابھی بھی اسی طرح کے طرز زندگی سے دوچار ہیں، سیاستدانوں کی شاہ خرچیوں میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں اور عوام آٹے دال کے بھائو سے ہمہ وقت پریشان ہیں۔ کسان کی زندگی آج بھی انہی مشکلات میں گھری ہوئی ہے، کسانوں کے ساتھ اس ناروا اور امتیازی سلوک سے ہرکوئی پریشان تھا، دْلاّ بھٹی نے اس مزاحمتی تحریک کے ذریعے مغلوں پر ان کی زندگی تنگ کرنا شروع کردی، یہاں تک کہ اکبر کو دلی چھوڑ کر لاہور میں تخت نشین ہونا پڑا، اگرچہ تاریخ میں دْلاّ بھٹی کو ڈاکو تک کہا گیا اسے ہیرو کی بجائے ولن بنا کر پیش کیا گیا تاریخ کے اوراق کی اس ستم ظریفی کے باوجود اس جواں مرد کی بہادری اور دلیری کے قصے سنائے جاتے ہیں، گیت گائے جاتے ہیں، کیونکہ اس نے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی، کہا جاتا ہے کہ اکبر کے نافذ کردہ دین الہٰی کے احکامات کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں اسے پھانسی دی گئی۔ کبھی نہ جھکنے والی گردن کو جب اکبر کے دربار میں پکڑ کر لایا گیا تو ایسی کھڑکی کا انتظام کیا گیا جس سے دْلاّ بھٹی کو جھک کر گزرنا پڑے، اس جبری اطاعت نے بھی دْلا بھٹی کو کمزور نہ کیا اور اس نے اطاعت سے انکار کردیا۔ اپنی دلیری کی وجہ سے اس مرد مجاہد کو رابن ہڈ آف پنجاب کا نام دیا جاتا ہے، مارچ کا مہینہ اس عظیم لیجنڈ کی شہادت کا دن ہے، ہماری ستم ظریفی ابھی بھی قائم ہے، نہ تو نئی نسل کو اس عظیم ہیرو کے بارے میں کوئی علم ہے اور نہ وہ اس کے کارناموںسے واقف ہے، ایسے لوگوں کو نصاب کی کتابوں میں شامل کرنا چاہئے، مجھے حیرت ہے کہ پنجاب کے ساتھ ہمیشہ منافقت بھی پنجاب کے لوگوں نے ہی کی ہے۔