فاتح بدروحنین و خندق، مولود کعبہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ

Feb 04, 2023

آغا سید حامد علی شاہ موسوی

فاتح بدر و حنین وخندق و خیبر، شاہ لا فتی، صاحب ذوالفقار
مولود کعبہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ
آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ
فاتح بدر و حنین وخندق و خیبر امیر المومنین حضرت علی ؓنے 13رجب المرجب 30عام الفیل کو بیت اللہ میں ورود فرمایا۔علی ابن ابی طالب نے تین دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورؐ نے اپنی آغوش میں نہ لے لیا ۔نبی ؐ نے علی کو اپنا لعاب دہن چوسایا۔حضرت علی ؑ کے والد ماجد رسول خدؐا کے شفیق و نگہبان چچا ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم اور والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔نجیب الطرفین ہاشمی اس گود میں تشریف آئے جونبی کریمؐ کی پرورش و کفالت کرکے عظمتوں کی معراج پر پہنچ چکی تھی۔ مشہور اہلسنت مورخ و عالم علامہ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں کہ ’’حضرت علی ؓسے پہلے کسی کی بھی خانہ کعبہ میں ولادت نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت ،عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے اور آپ کے احترام کا اظہار ہو(فصول المہمہ )۔مستدرک حاکم میں مذکور ہے آپ سے پہلے نہ کوئی کعبہ میں پیدا ہوا نہ ہوگا۔۔۔کسے را میسر نہ شد ایں سعادت  
    بکعبہ ولادت بمسجد شہادت
آپ کا نام حضرت ابو طالب نے اسد رکھا والدہ نے حیدر اور سرور کائناتؐ نے آپ کا نام علی رکھا۔ایک دن آپ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور کلہ کو چیر پھینکا ۔ماں نے واپس آکر دیکھاتو بیساختہ کہہ اٹھیں کہ میرا فرزند حیدر ہے ۔آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے ۔مرتضیٰ آپ کا  لقب ہے ۔
 علیؓ اپنی ولادت سے لے کر رسول ؐ کی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں نبیؐ کے ساتھ ساتھ رہے ۔ علیؓ  نے عشق رسول ؐ والد گرامی حضرت ابو طالب سے ورثے میں پایا۔جیسے نبی ؐ کی کفالت حضرت ابو طالب  نے کی تھی ویسے ہی علی ابن ابی طالب کی پرورش کا ذمہ رحمۃ للعالمین و ام المومنین ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ نے  اپنے ذمہ لے لیا۔یوں علی ابن ابی طالب  زمانہ جاہلیت میں طاہرہ کہلانے والی ہستی حضرت خدیجہ و خیر البشر محمد مصطفیؐ کے سائے میں پروان چڑھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں۔ 
رسول خداؐ مجھے سینے سے چپٹائے رکھتے تھے ،اپنے پہلو میں سلاتے تھے مجھے اپنی خو شبو سنگھاتے تھے ،پہلے خود کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے ۔میں نبی کریم ؐ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے‘‘(نہج البلاغہ)یہ اسی تربیت کا فیض تھا کہ کہ جیسے ہی اقرا باسم ربک کی وحی آئی علیؓ نے فوراً نبی کی صدا پر لبیک کہا اور ظاہری دنیا میں بھی مسلم اول کہلائے ۔ 
 علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں’’ حضرت علیؓپاک و پاکیزہ پیدا ہوئے آپ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ ’’کرم اللہ وجہہ ‘‘لکھا جاتا ہے (صواعق محرقہ)جب نبی کریم ؐ کوسورہ شعراء کے تحت اپنے رشتہ داروںکو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آنحضور ؐ نے اولاد عبد المطلب کے چالیس افراد کو حضرت ابو طالب کے گھر بلوایااور  فرمایا جو بھی میری اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے کاررسالت میں میری مدد کرے گا وہی میرا بھائی میرا وصی اور وزیر ہوگا۔یہ سن کر کسی نے جواب نہ دیا تو کم سن حضرت علی کھڑے ہوگئے اور فرمایا یا رسول اللہ مجھے آپ کی دعوت قبول ہے اور میں آپ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔آنحضور ؐ نے فرمایا علی تم بیٹھ جاؤ حضور ؐنے اپنی دعوت تین مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخر موجودات نبی کریم ؐ نے فرمایااے علی تم میرے بھائی وزیر اور وارث ہو۔
تاریخ طبری میں ابو رافع سے مروی ہے کہ جب غزوہ احد میں حیدر کرارؓ کی شجاعت دیکھ کر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور جبرائیل نے کہا میں آپ دونوں کا تیسرا ہوں اور جب ’ذوالفقار ‘حضرت علیؓ کے واسطے آسمان سے نازل ہوئی اسکی  مدح میں  صحابہ کبارؓ  نے جبرئیل  کی یہ صدا سنی  ’لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘(جواں مرد صرف علیؓ ہے اور تلوار صرف ذوالفقار ہے )۔ 
غزوہ خندق میں حضرت علیؓ ابن ابی طالب  جب عمر ابن عبدود کے مقابلے میں اترے تو رسول  اللہؐ نے فرمایا آج کل کفر کے مقابلے میں کل ایمان جارہا ہے۔ یوم خندق علی ابن ابی طالب کا عمر ابن عبدود کا مقابلہ کرنا قیامت تک میری امت کے اعمال سے افضل ہے (مدارج النبوۃ) 
اسی بات کو نبی کریم نے غزوہ تبوک کے موقع پر بھی دہرایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا (اے علیؓ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون ؑکا حضرت موسیٰؑ کے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(صحیح مسلم:جلد سوم،صحیح بخاری ،متفق علیہ)
 حضرت ابن عمرؓ روایت ہے کہ جب نبی اکرمؐ نے انصار ومہاجرین کے درمیان مواخاۃ قائم کی تو حضرت علیؓ اشک بار آنکھوں کے ساتھ رسول کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپؐ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1687 ،مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 708   )
حضرت علیؓ کی رسول پر فدا کاری کا اس سے بڑا کیانمونہ ہو گا کہ ہجرت کی شب جب نبی کریم مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو امین نبی ؐ نے اہل مکہ کیلئے آپ کو امانت دار بنایا  اور علیؓ کو اپنے بستر پر سونے کا کہا حضرت علیؓ نے فقط اتنا پوچھا کہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائے گی ۔آپ ؐ نے فرمایا ہاں ۔یہ سن کر علیؓ نے اسلامی تاریخ میں پہلی بارجبیں زمین پر رکھ کر سجدہ شکر ادا کیا اورحضرت علیؓ کفار مکہ کے گھیراؤ میں رسول ؐ کے بستر پر بلا خوف و خطر سوگئے اور سورہ بقرہ  آیت 207کے مطابق اللہ کی مرضیاں خرید لیں(طبری، ابن الاثیر) ۔
رسول خدا ؐ نے بحکم خداشہزادی کونین خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی تزویج حضرت علیؓ سے فرمائی۔ حضرت انس ؓسے مروی ہے ’’رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما تھے اور حضرت علیؓ  سے فرمایایہ جبریل ہے جومجھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہاری (علی)شادی فاطمہ سے کردی ہے اور تمہارے نکاح پر40  ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیااور شجر ہ طوبی سے فرمایا ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو پھر حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے ‘‘ ۔خطیب بغدادی نے سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ وقت نکاح آنحضور ؐ نے حضرت فاطمہ زہراؓ سے فرمایا فاطمہ حق تعالی نے زمین سے دو شخصوں کو برگزیدہ فرمایاان میں سے ایک تمہارا والد ہے اور دوسرا تمہارا شوہر علیؓ۔(مدارج النبوۃ شاہ عبد الحق محدث دہلوی )۔حضرت علیؓ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کردیئے گئے تب علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہراؓ کا دروازہ باقی رہنے دیا گیا(ترمذی ۔حاکم )
حضرت علیؓ ہی وہ ہستی ہیں جنہیں و ما ینطق عن الھوی کے مصداق رسول ؐ نے غدیر خم کے میدان میں تاج ولایت یہ کہہ کر پہنایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؓ مولاہے۔(المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے کہا اے ابو طالب کے بیٹے !آپ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے (فتح القدیر)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ ’’اس امت مرحومہ میں ولایت کا  باب کھولنے والے حضرت علیؓ ابن ابی طالب ہیں اولیائے امت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علیؓ  کے خاندان امامت سے وابستہ نہ ہو‘‘(التفہیمات الالہیہ)حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں ’’راہ ولایت کے واصلین کے پیشوا سردار اور منبع ٔفیض حضرت علیؓ ابن ابی طالب ہیں ۔وہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماوی تھے جیسا کہ جسدی پیدائش کے بعدہیں‘‘(مکتوبات مجدد الف ثانی)
 حضرت علیؓ ابن ابی طالب کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اسی لئے علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علیؓ  کے مناقب و فضائل حد احصا سے باہر ہیں ایک مقام پر فرمایا کہ تین سو سے زائد آیات علیؓ ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئیں۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا علیؓ کیلئے جتنے فضائل و مناقب ہیں کسی کے لئے نہیں۔علی مرتضیٰ ؓ  نے سب سے پہلے امت میںرسول اللہ کے ساتھ عبادت کا شرف حاصل کیا(سیرت حلبیہ)حضرت  علیؓ اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اس کے تحفظ میں بھی سب سے آگے رہے بدر کے میدان میں کفار کے سرداروں کے غرور کو خاک میں ملایا،جنگ احد میں رسولؐ  کیلے سینہ سپر ہوگئے ،جنگ خندق میں عمر ابن عبدود جیسے جری کو پچھاڑا،خیبر کے ناقابل تسخیر قلعہ کو تسخیر کرکے مرحب جیسے عرب بہادر کو جہنم کی راہ دکھائی ۔حضرت علی ؓہی نے فتح مکہ کے روز رسول ؐ کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے بت شکن کا اعزاز حاصل کیا۔سخی ایسے کہ رات بھر باغ میں مزدوری کرکے حاصل ہونے والی جو سے پکی روٹیوں کو عین افطار کے وقت سوالی کو دے دیااور تین دن ایسا ہی ہوتا رہا رسول خداؐ علی فاطمہ حسن و حسین تین دن بھوکے رہے جس پر سورہ ہل اتی نازل ہوئی (ریاض النضرۃ)اسی لئے  (مولانا جلال الدین رومی ؒ) فرماتے ہیں:
اے رہنمائے مومناں اللہ مولانا علیؓ
توئی سروش غیب داں اللہ مولانا علیؓ 
 اسماعیل بن موسی، محمد بن عمر رومی بن شریک، سلمہ بن کہیل، سوید بن غفلہ، صنابحی اور حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ  نے فرمایا کہ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔(جامع ترمذی:جلد دوم )حضرت علیؓجب جوان تھے پیغمبر اسلام نے آپ کو قضاوت کیلئے یمن بھیجا حضور صحابہ تائید کرتے ہیں کہ ہم لوگ تمام اہل مدینہ میں سے علی ابن ابی طالب کوسب سے بہتر فیصلہ کرنے والا جانتے تھے (انساب الاشراف) خاتم الانبیاؐ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا’’علم قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نوحصے علی کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا(حلیۃ اولیا جلد ۱صفحہ 66)یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ اپنی خلافت کے دوران علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کومرجع منبع علم سمجھتے ہوئے مشکل ترین امور میں ان سے مشاورت حاصل کرتے اسی لئے کہا کہ خدا عمرؓ کواس مشکل سے روبرو ہونے کیلئے باقی نہ رکھے جسے حل کرنے کیلئے علیؓ موجود نہ ہوں (طبقات جلد 2صفحہ339 /انساب الاشراف جلد1صفحہ 100)

خود علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ ہم اہلبیت اللہ و رسول ؐکے پیغام سے سب سے زیادہ آگاہ ہیں (طبقات الکبریٰ جلد6صفحہ240) ایک موقع پر فرمایا کہ جو میں نے رسول اللہ سے سنا چاہے حدیث ہو یا کچھ اور اسے فرامو ش نہیں کیا (انساب الاشراف) نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کہاں نازل ہوئی اور کس سلسلے میں نازل ہوئی (انساب الاشراف جلد1صفحہ 99 ،نیزحاشیہ طبقات الکبریٰ جلد2صفحہ338)نیز فرمایا کہ میں اگر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھنا چاہوں تو 70اونٹوں کے برابر ہو جائے (التراتیب الاداریہ جلد3صفحہ183)
نامور مفکرڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا ’’آج اسلامی معاشرے نے اپنا ایمان اور ہدف کھو دیا ہے اور ایمانی جذبہ اس کی سوچ کی راہوں میں دفن ہو گیا ہے ۔اسلامی معاشرے کو ایک انقلابی فکری شرارے کیلئے مکتب کی ضرورت ہے اسلامی معاشرے کو استعمار کے مقابل وحدت کی ضرورت ہے اور مسلم عوام کو ناروا ترجیحات کے نظام میں عدالت کی ضرورت ہے اسی لئے انہیں علی کی ضرورت ہے ۔صرف مفکرین نہیں تمام اولیاء نے بھی محبت علیؓ کے ذریعے نبیؐ اور خدا تک پہنچنے کا راستہ بتایا۔بقول حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ
 گر خدارا دوست داری مصطفیؐ را دوست دار
در محب مصطفائی ؐ، مرتضیٰؓ را دوست دار
 یعنی اگر تُو خدا کو دوست رکھتا ہے تو محمد مصطفی ؐ کو دوست رکھ اور اگر محمد مصطفی ؐکا چاہنے والا ہے توعلی مرتضیؓ سے محبت رکھ۔آج اگر امت مسلمہ میں جذبہ حیدری بیدار ہوجائے تو مسلمان ہر بحران سے نجات پا سکتے ہیں ۔سائنس و ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر پہنچ کر استعمار کی طاقت کے بتوں کو پاش پاش کرسکتے ہیں ۔بقول شاعر مشرق 
دلوں کو مرکز ِمہرو وفا کر  حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
 اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر

مزیدخبریں