اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے، یقینی بنایا جائے کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والے بچ نہ سکیں۔ حقائق اور قانون کیخلاف فیصلہ دینے والے جج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اغواء برائے تاوان کے ملزموں کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 8صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں، ججز بغیر کسی خوف، دباؤ اور ایمانداری کے ساتھ آئین و قانون پر فیصلوں کے پابند ہیں۔ ججز کا کام مقدمہ کے حقائق کے مطابق آئین اور قانون کا اطلاق ہے۔ ملک بھر میں ججز کی تمام خالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں، سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیئے۔ کسی جج کے کردار پر شک نہیں، غلط فیصلوں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم حقائق اور قانون کیخلاف فیصلہ دینے والے جج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیئے۔ جج کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کیلئے اپنے اختیارات اور اس کے استعمال کا علم ہونا چاہئے۔ ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی گناہگار بچ جاتے اور بے گناہوں کو سزا ہو جاتی ہے۔ ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9 اور 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل یقینی بنائے، جرم ثابت نہ ہو رہا ہو تو ٹرائل کورٹ کسی بھی سٹیج پر ملزم کو بری کر سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بیشتر مقدمات میں اصل ملزم ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں۔ کہیں تفتیش ناقص ہوتی ہے تو کہیں گواہوں کا عدم تعاون ملزموں کی بریت کی وجہ بنتا ہے، گواہوں کے تحفظ کیلئے کوئی مکینزم نہ ہونا بھی عدم تعاون کی بڑی وجہ ہے۔ فیصلے کے مطابق مدعی کی جانب سے ذاتی عناد پر زیادہ ملزموں کی نامزدگی بھی قصورواروں کو بچانے کا سبب ہوتی ہے۔ موجودہ مقدمہ میں ملزم 7 سال جیل میں رہے، بری تو ہوگئے لیکن بروقت انصاف نہیں ملا، ملزموں کے 7 سال اور قانونی چارہ جوئی پر ہوئے اخراجات کے مداوے کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں۔ یقینی بنایا جائے کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والے بچ نہ سکیں۔