خیبر پی کے کے سادہ عوام ایک شخص کے جال میں پھنس گئے: نواز شریف۔
خدا جانے میاں نواز شریف کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ خیبر پی کے کے عوام کو بھی بیوقوف اور کبھی سادہ لوح کہہ کر ان کے مزاج برہم کر رہے ہیں جوپہلے ہی برہم ہیں۔اب انہیں اور بھی برہم کرنے کا کیا فائدہ۔ اگر روایتی طور پر وہ ایسا اپنی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو انہیں اس وقت اس بارے میں وضاحت کرنا چاہیے تھی۔ کہتے ہیں چرچل نے ایک بار کہا تھا برطانوی دارالعلوم کے آدھے ممبران احمق یا پاگل ہیں جب لے دے ہوئی تو انہوں نے فوری طور پر اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم کے آدھے ارکان پاگل نہیں ہیں۔ یہ ہوتی ہے سیاسی بذلہ سنجی۔ اسے کہتے ہیں دانائی۔ اب یہ بات مغل اعظم ہو یا بابر اعظم کو کون سمجھائے۔ ویسے بھی برصغیر میں سب سے زیادہ لطائف پٹھانوں اور سکھوں کے حوالے سے بنتے ہیں مگر یہ بات مذاق مذاق میں کی گئی ہوتی ہے۔ خیبر پی کے والے بہادر، جفاکش اور محبت کرنے والے ہیں وہ صرف پی ٹی آئی کے چاہنے والے نہیں وہاں آج بھی اے این پی، جے یو آئی اور خود مسلم لیگ والوں کے ووٹر بھی ہیں۔
اب میاں صاحب نے انہیں سادہ لوح کہہ کر اچھا کیا ورنہ احمق والے بیان پر تو سب ناراض ہو گئے تھے۔ الیکشن سر پر ہے ان چند دنوں میں ووٹروں کی ناراضگی کوئی مول نہیں لے سکتا۔ تالیف قلوب ضروری ہے۔ آج کل میاں نواز شریف خیبر پی کے کا دورہ کر رہے ہیں تو دیکھیں وہاں کے بہادر پیار کرنے والوں نے ان کا کیسا استقبال کیا۔ ویسے بھی پٹھان مہمان نواز ہوتے ہیں اور میاں صاحب تو ہیں ہی نواز شریف اوپر سے نعرہ بھی یہی ہے ملک کو نواز دو۔ تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی پیاری پیاری باتوں سے خیبر پی کے والوں کے دلوں میں جگہ بنائیں اور وہاں سے بھی ووٹ لیں ورنہ پی ٹی آئی عمران اور پرویز خٹک گروپ کے علاوہ وہاں جے یو آئی (فضل الرحمن) اور اے این پی کے ساتھ جماعت اسلامی والے بھی مورچہ زن ہیں۔ اورمقابلہ سخت ہے
٭٭٭٭٭
کئی سیاسی رہنمائوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں۔
خیبر پی کے اور بلوچستان میں الیکشن مہم کے دوران درجنوں امیدواروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کئی مقامات پر تو قتل کی وارداتیں بھی ہوئی ہیں پہلے اطلاعات تھیں کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو الیکشن مہم سے دور رکھنے کے لیے روکا جا رہا ہے جو افسوسناک بات ہے۔ مگر اب تو مولانا فضل الرحمن سمیت کئی بڑے لیڈروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بتا رہی ہیں کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ کچھ لوگ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو سیاسی رہنما ہیں جو بے چارے کرسی یعنی اقتدار کی طلب میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کوچہ سیاست کو اپنے خون سے رنگین کرنے سے باز نہیں آ رہے اور لیلائے اقتدار کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے شہر شہر گائوں گائوں دھمکیوں کے باوجود نکلتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عوام کا یعنی اقتدار کا کتنا غم ہے کہ یہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ ہوتی ہے سچی محبت ورنہ جان کی دھمکی سن کر تو بڑے بڑے سورما جان بچاتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک بنیئے کے گھر ڈاکو آئے انہوں نے کہا جو مال ہے ہمارے حوالے کر دو ورنہ گولی مار کر جان نکال دیں گے۔ وہ کنجوس بنئیا بولا جان بے شک لے لو مال تو میں نے بڑھاپے کے لیے سنبھال کر رکھا ہے۔ شاید ہمارے سیاستدانوں کو بھی جان سیزیادہ اقتدار کی فکر لاحق رہتی ہے کیونکہ اس سے حاصل فوائد انہوں نے اپنی اور اپنی نسلوں کے لیے سنبھال کر رکھنے ہوتے ہیں۔ اب حکومت ووٹنگ سے 4 روز قبل دھمکیاں ملنے والے سیاستدانوں کی فہرست جاری کرنے کی بجائے ان کی حفاظت یقینی بنائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ مزید دس یا پندرہ نشستوں پر دوبارہ الیکشن کرانا پڑیں ویسے بھی کئی امیدوار وقت مقررہ پورا ہونے پر جہاں فانی سے کوچ کر کے اگلے جہاں بھی سدھار سکتے ہیں اس لیے احتیاط لازم ہے۔
٭٭٭٭٭
کارنر میٹنگ میں فردوس عاشق اعوان ووٹر کے سوال پر طیش میں آ گئیں
جب طویل عرصہ اقتدار کا مزہ لوٹنے والے وزارتوں پر براجمان رہنے والے جو ہر وقت میڈیا پر آ کر کسی اشتہار کی طرح ہر وقت ناظرین کے سروں پر سوار رہتے ہوں عوام کے سامنے دوبارہ پیش ہوں گے تو ان سے سوال تو ہو گا۔ اب اس میں برا ماننے والی بات کیا ہے۔ یہ اچانک طیش میں آ کر گلے سے پھولوں کے ہار اتار کر پھینک دینا کیا کسی سنجیدہ سیاست دان کا شیوہ ہو سکتا ہے۔ وہ بھی ایک ایسی سیاست دان جو عرصہ دراز سے کبھی پی پی کبھی پی ٹی آئی کے دور میں وزیر رہیں ان سے آخر یہ پوچھنے میں کیا ہرج تھا کہ ان کے سوئی گیس لگانے کے وعدوں کا کیا ہوا۔ وہ پورے نہیں ہوئے، جواب میں فردوس عاشق اعوان کو طیش میں آنے کی بجائے تسلی سے اپنی مجبوریاں بتانا چاہیے تھیں، وعدوں کے وفا نہ ہونے پر افسوس کرنا چاہیے تھا، ووٹروں کو کچھ نئے سبز باغ اس طرح دکھانے چاہیئں تھے کہ وہ ایک بار پھر یقین کر لیتے۔ اب یوں الجھنے سے تو کام خراب ہو سکتا ہے۔ ووٹر تو پہلے ہی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
والا معاملہ اختیار کرنے لگے تو پھر ڈبے خالی نکل سکتے ہیں۔ تب وہ کہہ سکتے ہیں ’’حال کیسا ہے جناب کا‘‘ اس لیے سیاستدانوں کو تو پتھر بھی مارے جا رہے ہیں سندھ میں گالیاں بھی پڑ رہی ہیں تیز وتند باتیں بھی سننا پڑ رہی ہیں یہ تو پنجاب میں شکر کریں ابھی ایسا وقت نہیں آیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دان سردار نواب عوامی ردعمل سے گھبرا کر سر جھکائے اِدھر اْدھر نکل جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ
’’جس کو ہو جان و دل عزیز، تیری گلی میں جائے کیوں
اسلئے یہ وقت باتیں سننے کا ہے۔آنکھیں دکھانے کا نہیں۔
٭٭٭٭٭