اُردو زبان انگریزی سے زیادہ زرخیز ہے

کالم سے پہلے ہمارے ایک بہت ہی مہربان دوست جناب امتیاز علی سکھیرا (ایڈیشنل کنٹرولر آف امتحانات ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) جن کی والدہ صاحبہ تقریباً 80 سال کی عمر میں اِس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین! مرحومہ و مغفورہ نے اپنے پسماندگان میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ہم جناب برادرم امتیاز علی سکھیرا صاحب کے اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔
     اردو نے عربی اور فارسی زبانوں کے زیرِ اثر نشوونما پائی۔ جس طرح انگریزی زبان‘ فرنچ‘ جرمن اور لاطینی زبانوں کے زیرِ اثر پھولی پھلی عربی اور فارسی کی وسعتوں کا مقابلہ آج کے سائنٹفک عہد میں کوئی زبان نہیں کرسکتی ہے اس لئے عربی کی صحبت یافتہ زبان اردو کی ہمسری کا دعویٰ انگریزی زبان یا یورپ کی کوئی دوسری زبان نہیں کرسکتی۔
    اردو زبان میں حروف تہجی چھیالیس اور انگریزی میں چھبیس ہیں کوئی معقول آدمی اس حقیقت کے اعتراف سے انکار نہیں کرسکتا کہ چھیالیس ستونوں والی عمارت چھبیس ستونوں والی عمارت سے زیادہ مستحکم اورکشادہ ہوگی، جب کہ چھبیس ستونوں والی عمارت کے پاس عمارت کو استحکام بخشنے کے لئے آوازوں کی تنظیم عربی زبان کی طرح موجود نہیں۔
    مسلمانان پاکستان کے لئے مادری زبان اوروہ بھی ایک زرخیز مادری زبان میں جسے ہندی مسلمانوں کے تمدنی ارتقا نے تخلیق کیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا نہ صرف مناسب اور موزوں ہے بلکہ قومی زندگی کی ترقی اور فلاح کے لئے ضروری ہے اس لئے کہ بچوں کی قوت نمو اس زبان کے بار کو محسوس نہیں کرتی جس سے وہ انائوں کی نغمہ سنجیوں کے ذریعہ گہواروں کی فضائوں میں آشنا ہوتا ہے لیکن اس کی قوت نمو آہستہ آہستہ ایسی زبان کے بوجھ سے مسلسل متاثر اور زبوں حال ہوجاتی ہے جس سے وہ گہوارہ میں ناآشنا رہا ہو اور جس کے الفاظ ایام طفلی میں اس کے ادراک و فہم کی بساط سے باہر ہوں۔ ناآشنا زبان کی غیریت بچوں کی قوت نمو کو ایسی عمر میں محرومیوں (Frustrations)سے دو چار کردیتی ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو معدوم کرتی چلی جاتی ہے جبکہ قوم کے ہونہار نونہالوں کو شکست و ریخت ناامیدی اور محرومیوں کی ضربات سے بچانا قومی ترقی و فلاح کے لئے لازمی ہے۔ غیر مادری زبان میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے تخلیقی قوتیں بڑی حد تک اجاگر نہیں ہوتی ہیں اور جدت پسندی کی جگہ نقالی لے لیتی ہے۔
    زبان کی غلامی نہ صرف قومی قوتِ تخلیق National Creative Geniusکو تباہ و برباد کردینے کی ذمہ دار ہے بلکہ غیر ملکی زبان کے ذریعہ جو افکار و خیالات قومی زندگی میں منتقل ہوتے رہتے ہیں وہ نقال قوم کے تمدن اور معاشرت کو غالب قوم کے رنگ میں رنگ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں غالب قوم کے فکر و خیال کی ترجمانی اس کی زبان کرتی اور مغلوب قوم اس کا چربہ اتارتی چلی جاتی ہے اور اپنے تمدن اور معاشرت کے خاص رنگ و انداز کو غالب قوم کے غیر مربوط افکار و خیالات سے ہم آہنگ کرنے کی سعی میں اپنی قومی معاشرتی زندگی کو فتنہ و فساد کی آما جگاہ بنادیتی ہے رفتہ رفتہ ایک قوم دوسری قوم کی زبان کے زہریلے اثرات کے سبب اس کے باطل افکار و خیالات کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنی قومی زندگی کو ان پیمانوں میں ڈھالنے لگتی ہے جو اس کی معاشرت اور تمدن کی روح کے سراسر منافی ہوتی ہے اسی طرح ایک غالب قوم بغیر کسی جنگ و پیکار کے مغلوب قوم کے حقیقی نقش و نگار کو تبدیل کردینے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ قومی ذہن و دماغ کی تبدیلی کی یہی تصویر لارڈ میکالے کے سامنے تھی۔ جس کی طرف اس نے سب سے پہلے قدم اٹھایا تاکہ ہندوستان میں ایک ا یسی جماعت پیدا ہوجائے جو صورتاً ہندوستانی ہو اور سیرتاً انگریز۔ آج وہ اپنی اسکیم میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔
    الفاظ کے اس پیمانہ کا زہریلا اثر افکار و خیالات کے اختلاف کے باوجود صدیوں میں محسوس نہیں کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ زہریلے اثرات ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور نقال قوم کی فکر میں انقلاب پیدا کردیتے ہیں وہ غالب قوم کے مسموم افکار کی نقالی کی وجہ سے راہ مستقیم سے بھٹک جاتی ہے اور اس پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھولا۔
    مثال کے طور پر اردو زبان کا ایک لفظ تقویٰ ہے اس کا انگریزی ترجمہ (Piety)ہے انگریزی زبان میں کوئی دوسرا لفظ موجود نہیں ہے۔ جو تقویٰ کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے لیکن تقویٰ کا مفہوم (Piety)کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا ہے۔ تقویٰ سے رہبانیت کا کوئی تعلق نہیں لیکن (Piety)بغیر رہبانیت کے ممکن نہیں انگریزی زبان کا یہ لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے سارے تصورات کو جو اس کے گرد لپٹے ہوئے ہیں بولنے والے کے ذہن و دماغ میں جاگزیں کردیتا ہے انگریزی واں طبقہ 'Piety'کے لفظ کو استعمال کرکے گمراہ ہوتا ہے اس لئے کہ اس کے پاس تقویٰ کا صحیح مفہوم موجود نہیں۔ تقویٰ ہماری تمدنی زندگی کی روح رواں ہے لیکن انگریزی زبان کے پاس چونکہ تقویٰ کے صحیح مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کا انگریزی زدہ طبقہ تقویٰ کے لئے Pietyکا لفظ استعمال کرکے اس لفظ کے صحیح مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور ہمیشہ گمراہ ہوتا ہے۔
    آج انگریزی زبان تقویٰ کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی لفظ پیدا نہیں کرسکتی ہے۔ اس لئے کہ انگریزی زبان میں تقویٰ کے رجحانات اس لمحہ سے ناپید ہیں جب انگریز قوم اپنے جذبات اور کیفیات کی ادائیگی کے لئے الفاظ ڈھال رہی تھی اس کے علاوہ یہ زبان ایسے سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور ثقافتی ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ جہاں تقویٰ کا تصور پیدا ہی نہیں ہو اور نہ ہوسکتا ہے اسی لئے یہ تصور قابلِ غور ہے کہ انگریزی زبان کے ماحول میں کیا مسلمانوں کے بچے اسلامی شاہراہ زندگی کو اپنانے میں قطعی کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس لئے کہ انگریزی زبان ان کیفیات اوراحساسات کی ادائیگی کے لئے اپنے دامن میں الفاظ نہیں رکھتی ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی مرصع اور مجلا ہوسکتی ہے دین‘ غیرت‘ عفت‘ عصمت‘ حمیت‘ حیا‘ ایمان‘ حلم‘ اخوت‘ اللہ اور اسی طرح ہزاروں الفاظ ہیں۔ جن کا مقابلہ اور موازنہ کرکے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے احساسات و کیفیات کی ترجمانی کے لئے انگریزی زبان کے الفاظ اردو کے مقابلے میں قطعی تنگ اور کم مایہ ہیں وہ مسلمانوں کے فکر و خیال کو گمراہی کی دعوت دیتے ہیں جس سے قومی زندگی منتشر اور پراگندہ ہوتی چلی جارہی ہے لیکن حیف کہ افراد قوم اس حقیقت سے ابھی تک ناآشنا نظر آتے ہیں بعض اصحاب الرائے کا یہ قول کہ بغیر انگریزی زبان کی تعلیم کے ترقی ممکن نہیں ان کے لئے جاپان اور چین کی مثالیں راہ نمائی کا حق ادا کرسکتی ہیں البتہ اگر افراد قوم یہ فیصلہ کرلیں کہ انھیں اسلامی شعار زندگی قبول نہیں کرنا ہے تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بغیر انگریزی زبان پر دل و جان نچھاور کئے ہوئے زندگی محال ہے۔
    کسی زبان کے ذریعہ علوم و فنون حاصل کرنے کے لئے انسان کی طلب آرزو، رجحان، رغبت اور مدعا بڑی حد تک قابلِ اعتنا ہے ان کیفیات پر اس کا لطیف احساس حاوی ہوتا ہے جو ہر ایسی غیر مانوس شے کی طرف ذوق و شوق کے ساتھ لاشعوری طور پر ملتفت نہیں ہوتا، جس سے وہ نہ سماجی اور نہ گھریلو ماحول میں دو چار ہوتا ہے۔ ان موانع کے باوجود اور نامساعد حالات کے تحت اگر انسان کو قہراً و جبراً ایسی ناآشنا زبان کے ذریعہ کسب علوم کرنے کی ہدایت کی جائے گی تو اس کا لطیف احساس آہستہ آہستہ جبر کے بار سے منتشر اور پراگندہ ہوتا جائے گا اس کی قوائے عملی اور قوت تخلیقی ناموافق اثرات سے کمزور اور زبوں حال ہوجائیں گے۔ اور قومی زندگی کا دامن بھی ایسے افراد کے وجود سے واغدار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
    غیر مانوس یا غیر مادری زبان کے ذریعہ حصول علم دیر طلب ہوتا ہے۔ کچھ وقت زبان سیکھنے میں ضائع ہوتا ہے‘ اور اس کے بعد افکار و خیالات تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس کے علاوہ افکار و خیالات کی تشریح و وضاحت کے لئے زبان پر مہارت ضروری ہے اور غیر مادری زبان میں مہارت مادری زبان کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور دقت طلب ہے مثال کے طورپر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک میں انگریزی زبان میں جتنے باکمال شاعر اورادیب پیداہوئے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مادری زبان نے فضلا اور علماء پیدا کئے جو قوم و ملک کی فلاح و بہبود کے ضامن قرار پائے۔ اگر غیر مادری زبان میں مہارت حاصل کرنی آسان ہوتی توماہرین کی پیداوار میں اضافہ ہوتا اسی لئے فنی مضامین ہوں یا قانونی جب وہ مادری زبان میں ادا کئے جائیں گے تو ان کا معیار غیر مادری زبان کے مقابلہ میں زیادہ بلند اور عام فہم ہوگا لیکن غیر مادری زبان میں بلند افکار و خیالات کو عام فہم بنانا قطعی ناممکن ہے۔ اسی لئے غیر مادری زبان کے ذریعہ بسرعت علوم و فنون عوام میں نہیں پھیلے ہیں۔ غیر مادری زبان کے ذریعہ عوامی زندگی کو اعلیٰ علوم و فنون سے جلد از جلد مزین اور آراستہ نہیں کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں غیر مادری زبان کے ذریعہ کسب علوم کرنے والی قوم ان قوموں کے مدمقابل کھڑی نہیںہوسکتی جو اپنی مادری زبانوں کے ذریعہ علوم و فنون حاصل کررہی ہیں۔
    بعض اہل علم و دانش کا یہ خیال کہ زبان اردو ہند و مسلم اتحاد کا عطیہ ہے میرے نزدیک غلط ہے۔ ہندوستانی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور جس کا نام لوگوں نے اردو رکھ دیا ہے اسلامی تمدن کی شاندار تخلیق ہے۔ اسلام جب عربی رسم الخط کے ساتھ دنیا میں پھیلا تو دجلہ سے مغرب ساحل مراکش تک اس نے تمام قوموں کو عربی زبان کا ایسا گرویدہ بنالیا کہ آج وہاں کی مقامی زبانوں کی تاریخ بھولا ہوا افسانہ بن گئی۔ دجلہ سے مشرق انڈونیشیا تک مختلف قوموں نے اسلامی پیغام تو قبول کرلیا مگر عربی زبان قبول نہیں کی‘ عجمیوں نے عربی زبان سیکھنے سے پہلو تہی کی لیکن عربی رسم الخط کے سامنے انھیں بھی ہتھیار ڈالنا پڑا۔ اسلامی انقلاب کا یہ ایک شاندار کارنامہ ہے کہ اس نے مغرب میں مقامی زبانوں کی جگہ عربی زبان اورمشرق میں مقامی رسم الخط کی جگہ عربی رسم الخط رائج کردیا۔ عربی رسم الخط سے مربوط جوزبان ہندوستان میں تیار ہوئی وہ اسلامی قوتوں کی مفتوحہ اور مقبوضہ مخلوق ہے اورمسلمانوں کی قوت تسخیر کا شاندار نمونہ۔ 

ای پیپر دی نیشن