علامہ اقبال ؒ  کا تصورِ تعلیم     اقبال کا نظریہ تعلیم قرآن و سنت سے ماخوذ ہے   ؎ گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

اقبال مسلمان کیلئے قرآن کی تعلیم کو اولیت دیتے ہیں کیونکہ اسلام کا مقصد ایسے انسان کو پروان چڑھانا ہے جو ہادیٔ برحق کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر عمل کو ان کے تابع کر دے۔ اقبال دورِ جدید کے مسلمان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی ؑ اور حضرت امام حسین ؑ، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، سلطان محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی، خالد بن ولید جیسی صفات کا عکس دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال مسلمان کی تعلیم کا اولین مقصد خود نگری اور خودشناسی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہے، اپنی ذات کے ادراک سے بے بہرہ ہے درحقیقت وہ جاہل ہے۔ علامہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ مسلمان مغربی تعلیم کے زیرِ اثر اپنے مذہب، اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اقدار کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ اقبال اس دور کے حالات سے خائف تھے کیونکہ مغربی تعلیم مسلمان کو زوال کی جانب دھکیل رہی تھی۔ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایسی تعلیم کی طرف راغب کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے منافرت کی بجائے مسلمان کے دل میں عشق حقیقی کے لطیف جذبات پیدا کرے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ’’انسان کی زندگیاں دو ہیں ایک یہ جو محض عارضی اور فانی ہے او ردوسری وہ جو بعداز موت شروع ہو گی اور جس کا کوئی اختتام نہیں صرف عقل کو ہی اگر کل اور قطعی سمجھا جائے تو انسان اگلے جہان کا منکر بن جاتا ہے۔ خود مسلمانوں میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو قیامت اور جنت و جہنم کو محض ڈھکوسلا سمجھتے ہیں اور اس جہانِ فانی کی زندگی کو سب کچھ قرار دیتے ہیں۔ فرنگی تہذیب کے زیرِ اثر ان کا دل عقل سے مغلوب ہو کر دنیاوی مفادات میں اُلجھ جاتا ہے جب دل ہی مردہ ہو تو بدن پژمردہ ہو جاتا ہے ایسے دل او رایسے جسم والے افراد  کے پاس بصارت تو ہوتی ہے مگر بصیرت نہیں    ؎
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
    آج علم کی حدود چاند تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آج لوہا ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ آج انسان نے مہیب سمندروں اور فضائوں کو روند کر رکھ دیا ہے لیکن ساری کائنات میں کوئی رومی، کوئی جنید اور کوئی عطار نظر نہیں آتا   ؎
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
    صاحبِ سرور آئے کہاں سے؟ یہ چیز پیدا ہوتی ہے نالہ نیم شب کے نیاز، خلوت کے گداز، دیدئہ ترکی بے خوابیوں اور دل کی پوشیدہ بے تابیوں سے جبکہ آج کے اہل علم اور عاقل ان لذتوں سے ناآشنا ہیں۔ جب انسان اپنے من میں ڈوب کر اللہ کو پا لیتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ قطرہ سمندر میں جذب ہو کر بے کراں بن گیا ہے او رروح حدود زمان و مکاں سے باہر پرواز کر کے کائنات کی وسعتوں میں پھیل چکی ہے۔ انسان گھٹن سے نکل کر سکون او رفراخی قلب و نظر محسوس کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف مادی ضروریات کی فراہمی نہیں بلکہ روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا نام ہے کیونکہ وہ تعلیم جو روحانیت سے عاری ہے انسان کو بے دینی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسا فرد شیطان کے مماثل ہے۔ اقبال ایسی تعلیم کا درس دیتے ہیں جو مسلمان نوجوان میں خودی کے جذبے کو پروان چڑھائے اور اس کی عزت نفس کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو۔ اس کے برعکس وہ علم جو روحانی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کی بجائے صرف جسمانی لذتوں او رآسائشوں کی فراہمی تک محدود ہو مسلمان کیلئے زہر کی حیثیت رکھتا ہے   ؎
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے، جہاں میں دو کفِ جُو
    پروفیسر منور لکھتے ہیں ’’علامہ اقبال یورپ کو شیطان کی کارگاہ اس لئے کہتے ہیں کہ یورپ نے مادہ پرستی کے نظریات کو فروغ دے کر عالمِ انسانیت کو بنیادی قدروں سے محروم کر دینے میں بڑا پرزور کردار ادا کیا ہے‘‘   ؎
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
    اقبال اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان کا دل مغربیت زدہ ہونے کے باعث نفسانی خواہشات کا بُت کدہ بن کر نہ رہ جائے۔ اقبال مادہ پرستی کی بجائے روحانیت کی تلقین کرتے ہیں۔ انہیں ملال ہے تو اس بات کا کہ انسان نے مادیت پرستی کی دوڑ میں ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیا ہے۔ انسان مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ چکا ہے لیکن اپنی روح کی وسعتوں میں سفر نہیں کر سکا جس کے باعث اس کا بدن تو بیدار ہے مگر روح خوابیدہ ہو چکی ہے   ؎
ڈھونڈے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا!
    اقبال کو خوف ہے تو اس بات کا کہ مسلمان قوم پر قبل از اسلام ، اسلام کا دور جہالت پھر نہ چھا جائے اور ڈر ہے تو اس بات کا مسلمان اپنے اسلاف کی روایات کو فراموش کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کلچر کے رنگ میں نہ رنگ جائیں کیونکہ اقبال کے نزدیک مغربی تعلیم محض دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں    ؎
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
    اقبال نے تہذیبِ فرنگ کی مخالفت کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس نے زندوں کو مُردہ او رمُردو کو مُردہ تر کر دیا ہے اور اس کی ساری رنگینیاں جو نگاہ کو خیرہ کرتی ہیں اہلِ بصیرت کیلئے محض باعثِ عبرت ہیں   ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
    ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم مغربی تہذیب کی اندھا دُھند تقلید کرتے کرتے اپنی اُخروی زندگی کو فراموش کر چکے ہیں اور محض جسمانی عیش و عشرت کو روحانی سکون پر ترجیح دینے لگے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اندر پریشان حالی، نفسا نفسی، خود غرضی، غلامی، بے عملی، نمود و نمائش جیسی برائیاں جنم لے چکی ہیں جو لمحہ بہ لمحہ زوال کے اندھے گڑھے کی طرف لے جا رہی ہیں جبکہ اقبال کے نزدیک نفسانی خواہشات پر قابو پانا اور مفید علم کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا ہی درحقیقت تعلیم ہے   ؎
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عین حیات
ہو نہ روشن و سخن مرگِ دوام اے ساقی!
    اقبال مسلمانوں کیلئے ایسی تعلیم کے حامی ہیں جو انہیں شاہین بنا دے او رانہیں دنیا کی نظروں میں عزت و توقیر بخشے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں   ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
    مختصر یہ کہ علامہ اقبال مغربی نظامِ تعلیم کے اس لئے مخالف ہیں کیونکہ مغربی معاشرہ کی بنیاد الحاد پر قائم ہے جبکہ اسلامی معاشرہ خدا کی وحدانیت کا درس دیتا ہے۔ انسانیت کو صراطِ مستقیم پر لانے کیلئے اقبال نے ہر ممکن کوشش کی اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔

ای پیپر دی نیشن