این آر او کے فیصلہ پر رائے زنی

جب کسی عدالت کا فیصلہ آ جائے تو اس پر مناسب اور مدلل تنقید کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن چند روز قبل قانون کے پنپنے سے تعلق رکھنے والی ایک انتہائی نامور شخصیت نے این آر او سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ٹی وی پر اس لب و لہجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جس سے یہ تاثر ابھرتا تھا کہ ان کی نگاہ میں فیصلہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ جب یہ یاد رکھا جائے کہ آپ نے ہمیشہ قانون کی عملداری‘ عدلیہ کی آزادی اور انسانی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی ہے‘ تو ان کے ارشادات پر تعجب لازمی امر تھا۔ یہ صحیح ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اب جب کہ فیصلہ آ ہی گیا ہے تو حکومت کو اس پر عملدرآمد کرنا پڑے گا لیکن آپ نے اتنا بھی نہیں کہا کہ فیصلہ کی بنیادی بات صحیح ہے‘ یعنی یہ کہ این آر او آئین سے متصادم ہے لہذا کالعدم ہے۔
یہ بات مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ ٹیلیویژن کو دیکھنے والے لاکھوں کروڑوں افراد کو آئین کی شقوں کی تفصیل پر زیادہ عبور حاصل نہیں ہوتااسلئے عوام الناس ایک واضح مسئلہ پر ذہنی الجھن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اول تو پارلیمنٹ کو یہ موقع دیا کہ وہ اگر چاہے تو اس آرڈیننس کو پاس کر کے قانون کا درجہ دے اور جب پارلیمنٹ نے ایسا نہ کیا تو عدالت نے اس مسئلہ پر غور اور بحث کر کے ایک ایسے کالے اور عجیب الخلقت قانون کو کالعدم قراردے دیا‘ جس کی نظیر شائد انسانی تاریخ میں ڈھونڈ نکالنی آسان نہ ہو‘ حکومتی پارٹی کے کئی لیڈر این آر او کے کالعدم قرار دئیے جانے کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹی وی اینکرز کو سیاست کے کھلاڑی نہیں بننا چاہئے۔ بلکہ یہاں تک مضحکہ خیز بات کرتے ہیں کہ یہ ٹی وی اینکرز اسرائیل کے ایجنٹ ہیں‘ یہ اورجو لوگ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ ان کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے یہ کہ سندھ میں دو لاشیں بھیجی گئیں اس مرتبہ لاش پنجاب جائے گی۔ اور سب سے بے سروپا یہ بات ایک صاحب نے کی ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کا نام بھی این آر او سے استفادہ کرنے والوں کی فہرست میں ہوتا اور وہ اس کو ایک تمغہ سمجھتے آپ ہی نے عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت مختلف پلازوںکے غیر قانونی حصوں کے مسمار کئے جانے کو ڈرون حملوں سے تعبیر کیا ہے یعنی ذرا غور فرمائیے! یہ افراد پیپلزپارٹی یا وطن عزیز کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہیں تھوڑی سی ڈھارس اس بات سے بندھتی ہے کہ ان لوگوں میں پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر شامل نہیں ہیں مثلاً رحمٰن ملک اور بابر اعوان نے عدالت میں پیش ہو کر ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہے یہ سب لوگ اپنے مقدموں کی عدالتوں میں پیروی کر کے ملک و قوم کی بھلائی کریں گے۔ آج کے ماحول میں اور میڈیا کی خیرہ کن روشنی میں کسی کیلئے ان کے ساتھ نا انصافی کرنا آسان کام نہ ہو گا۔ دوسری طرف عدالتوں سے تصادم مول لینا بھی آسان نہ ہوگا کیونکہ آج کی فعال رائے عامہ کی موجودگی میں عدالتوں سے متصادم رویہ اختیار کرنا ممکن نہ ہو گا۔ امید کرنی چاہئے کہ یہ لوگ ہوشمندی سے کام لیں گے‘ تاکہ قانون اپنا راستہ اختیار کر سکے۔
جب محترمہ بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کی دبئی میں خفیہ ملاقات اخباروں کی زینت بنی‘ جس میں وہ دونوں ملک و قوم کی پیٹھ پیچھے ’’ڈیل‘‘ کر رہے تھے اور جس میں ان دونوں کیلئے کچھ نہ کچھ تھا‘ لیکن وطن عزیز کیلئے کچھ نہ تھا‘ تو یہ ظاہر تھا کہ قوم کو اس ’’ڈیل‘‘ کی انتہائی بھیانک قیمت ادا کرنا پڑے گی اور آج ایسا ہی ہو رہا ہے اگر این آر او کی معذوری اور مجبوری نہ ہوتی تو جج صاحبان بہت پہلے بحال ہو چکے ہوتے‘ ہم آج بھی این آر او کی دلدل میں پھنسے ہوئے نہ ہوتے اور قوم کی تمام تر توجہ انتہا پسندی کے قلع قمع کی طرف ہوتی۔ ہمارے ہاں اور برطانیہ میں سیاسی اقدار کے معیار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے ہاں وفاقی حکمران جماعت کی سنٹرل انفارمیشن سیکرٹری کا بیٹا ایک نامور صحافی کو ای میل کے ذریعہ آخر الذکر کی موت کیلئے اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ ادھر برطانیہ میں شہزادہ ولیم یہ جاننے کیلئے کہ اس کے ملک میں شدید سردی کے موسم میں بے گھر افراد پر کیا گزرتی ہے ایک پوری رات لندن کے ایک فٹ پاتھ پر سو کر گزارتا ہے۔ زندہ قوموں اور بھیڑوں کے ریوڑ میں بس ایک ہی فرق ہوتا ہے ہماری نام نہاد اشرافیہ میں سے شائد ہی کوئی شخص شہزادے کی مثال اپنانا چاہے گا۔

ای پیپر دی نیشن