پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں وضو اور غسل کے لیے پانی اور مٹی سے طہارت کا حکم دیا چنانچہ سورہ¿ مائدة ارشاد ہوتا ہے۔
”اے ایمان والو! جب نماز کیلئے کھڑے ہونا چاہو تو اپنا منہ دھوﺅ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گھٹنوں تک پاﺅں دھوﺅ اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہو لو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو۔“ (کنز الایمان)
اس آیتِ کریمہ میں وضو اور غسل کا حکم اول پانی سے ہے اور اگر پانی میسر نہ ہو تو وضو اور غسل پاک مٹی سے تیمم کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آیتِ کریمہ میں پانی اور مٹی سے طہارت کا حکم ہے مگر اس کی تفصیل کہ کس پانی سے طہارت اور کس پاک مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے۔ احادیث نبوی کے بعد فقہائے کرام کی کتابوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے ۔اگر اس کو موضوع پر بحث کی جائے تو اس پر پی ایچ ڈی کے تھیسس لکھے جاسکتے ہیں۔ امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی نے تنِ تنہا اس پر تحقیقی کام کیا ہے جو فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد دوم، جلد سوم اور جلد چہارم کے سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مقالے میں نہایت اختصار کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ امام احمد رضا نے ان دو عنوانات پر کن کن پہلوﺅں سے تحقیق کی ہے۔
امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی نے برصغیر پاک و ہند میں فتاویٰ عالمگیریہ کے بعد سب سے مستند اور سب سے زیادہ تحقیقی کام فتاویٰ رضویہ کی صورت میں پیش کیا جو 12 ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے جب کہ اس کی جلد ِ اول صرف کتابِ طہارت پر مشتمل ہے جو کہ 900 صفحات پر مشتمل ہے جس کو جدید فتاویٰ رضویہ کی 4 جلدوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔صرف کتابِ طہارت پر ایک ضخیم جلد موجود ہے۔ امام احمد رضا کو فقہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ، کسی فقیہ اور کسی مفتی کے فتاویٰ میں کتاب طہارت اتنی ضخیم مرتب نہیں ہوئی۔
(استعمال شدہ پانی کی تعریف میں منصف صحیفہ)
امام احمد رضا نے اس مائے مستعمل کو بحث میں لانے کے بعد ماحاصل کو چند اشعار میں نظم کیاہے ترجمہ: ”مستعمل پانی جو کہ خود پاک ہوتا ہے اور دوسرے کو پاک نہیں کرتا رضا سے اس کی جامع مانع تعریف دو باتوں میں ہوئی: (1) جس سے مطلقاً حدث زائل ہوا ہو یا قربت مقصودہ کی نیت سے بدن پر استعمال ہوا ہو۔(2) قلیل پانی جب بدن سے جدا ہو تو مستعمل ہوجائے گا لیکن بعض کے نزدیک بدن سے جدا ہوکر کسی جگہ یا ظرف میں اس کا قرار ضروری ہے۔ “ راکد بمعنیٰ غیر جاری یعنی اَب قلیل کہ دَہ دردَہ نباشد۔“ (دَہ دردَہ یعنی 10x10 ہاتھ[ (یہ رسالہ ص43سے 112تک ہے)۔(2) النہیقة الانقیٰ فی فرق الملاقی والملقیٰ (1327ھ)
(ملنے والے و ڈالے گئے پانی کے فرق میں تحریر)
اس رسالے میں اس پانی سے بحث کی ہے کہ جب کسی بے وضو اور جنبی کا ہاتھ یا انگلی یا ناخن وغیرہ لوٹے یا گھڑے کے پانی میں پڑجائے تو وہ وضو کے قابل رہتا ہے یا نہیں۔ اس رسالے کو ص113تا248 تک جلد دوم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ”راجح ومعتمدیہ ہے کہ مکلف پر جس عضو کا دھونا کسی نجاستِ حکمیہ مثلِ حدث و جنابت و انقطاع حیض و نفاس کے سبب بالفعل واجب ہے وہ عضو یا اس کا کوئی حصہ اگرچہ ناخن یا ناخن کا کنارہ آب غیر کثیر میں کہ نہ جاری ہے نہ دہ دردہ بے ضرورت پڑجانا پانی کو قابلِ وضو و غسل نہیں رکھتا یعنی پانی مستعمل ہوجاتا ہے کہ خود پاک ہے اور نجاستِ حکمیہ سے تطہیر نہیں کرسکتا اگرچہ نجاستِ حقیقیہ اس سے دھوسکتے ہیں یہ ہی قول نجیح ورجیح ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد دوم، ص113)
(3) الھنی¿ المنمیر فی الماءالمستدیر (1334ھ)
(خوش گوار صاف آبِ مستدیر کی تحقیق)
اس رسالے میں اس کنویں اور حوض سے متعلق دریافت کیا گیا ہے کہ اس کا کیا سائز ہونا چاہیے کہ اگر کوئی نجاست اس میں گرجائے تو کب وہ پانی ناپاک قرار پائے گا۔
(4) رجب الساحة فی میاہ لا یستوی وجھھا وجوفھا فی المساحة الماحة (1334ھ)۔
(ان پانیوں کے بارے میں میدان وسیع کرنا جن کی سطح اور گہرائی پیمائش میں برابر نہ ہو)
اس رسالے میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ پانی گہرائی کے لحاظ سے کتنا ہوکہ اگر اس میں کوئی نجاست گرجائے تو وہ پانی ناپاک نہ ہوگا۔امام احمد رضا کے نزدیک ان گیارہ اقوال میں صرف دو صحیح ہیں کہ صرف اتنا ہو کہ اتنی مساحت میں زمین کہیں کھلی نہ ہو اور جب اس میں سے پانی ہاتھ سے نکالیں یا اٹھائیں تو زمین کھل نہ جائے۔
باب المیاہ میں آبِ مطلق اور آب مقید کے سلسلے میں طویل بحث اور تحقیق موجود ہے ۔