قائداعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے!

آجکل ایک بحث بڑے زور و شور مختلف ٹی وی چینلز پر اور دیگر پلیٹ فارم پر چھیڑی جاتی ہے جس میں قائداعظمؒ کو ایک سیکولر شخصیت اور نظریہ پاکستان کو سیکولرازم کی طرف راغب کرنے کیلئے اوچھے ترین ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔
سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں، روشن خیالی کے حامل افرادقائد اعظم کی 11 اگست 1947ءکی جس تقریر کا حوالہ بطور سیکولر ازم دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ”آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے معبودوں میں جانے کی اجازت ہے، پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے“۔ اور یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا ہے، مذہبی آزادی سب کو ہوتی ہے لیکن حکم صرف اللہ تعالیٰ کا اور دین صرف اسلام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہ بات پاکستان میں اقلیتوں کے ان حقوق اور مذہبی آزادی کےلئے کہے تھے جو اسلام نے ایک مسلم ریاست میں لازمی قرار دیے ہیں۔ سیکولر حلقہ اس بات کی جو تعبیر کر رہے تھے، قائد اعظم نے خود اس کی نفی کر دی تھی۔25 جنوری 1947ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے دو ٹو ک انداز میں فرمایا تھا”اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کیلئے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے“۔قائد اعظمؒ نے وفات سے چند روز قبل فرمایا”تم جانتے ہو کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے“۔ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ (اسلامیہ کالج پشاور جنوری 13، 1948)“ ماہ فروری 1948کو قائد اعظم نے ریڈیو پاکستان پر اپنے کے خطاب میں یہ ہی فرمایا تھا کہ ، ±پاکستان کا آئین ابھی پاکستان کی قومی اسمبلی کو بنانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اسکی شکل و شباہت کیا ہوگی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلام کے اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ جو آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سوسا قبل قابل عمل تھے۔
 اگر ہم قائد اعظم ؒ کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو کئی واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی اسلام دوستی اور مذہب سے محبت چھلکتی ہے۔ ہم نے قائداعظمؒ کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم ؒ نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔
قائد اعظم کے کردار سے واقف ہر شخص کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کے قول و فعل میں کہیں تضاد نہ تھا۔یہی میرے قائدکا کر دار تھا اس بات سے انکا بڑے سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا ہے تو پھر ہم کیوں اپنے معصوم رہنما پر بہتان طرازی پر اتر آئے ہے۔ خدارا پاکستانی قوم پرظلم مت کیجئے۔ اس پر رحم کھائے یہ بہت معصوم ہے۔اس کو اس کے ٹریک سے ہٹانے کی کوشش مت کیجئے۔ میرا قائد سیکولر ہر گز نہ تھا۔میرے قائد کے لئے جھوٹ اور ڈھٹائی کا سہارا مت لیجئے۔جن مقاصد کے لئے یہ ملک تخلیق ہوا تھا ان مقاصد کے تحت اس کو آگے بڑھنے دیجئے اپنی اور اپنی نسل کی عاقبت چند مغرب کے سکوں پر خراب مت کیجئے۔اسلام سے برگشتہ اور غیر اسلامی نظریات کے حامل چند بد طینت افراد اس معاشر کو بے لباس کرنے پر کمر کس کے بیٹھے ہیں۔مگر وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن