محمد علی کے ساتھ جوہر کا تخلص چسپاں کرنے کی روایت تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوئی۔ ورنہ ہم تو انہیں رئیس الاحرار مولانا محمد علی کے نام سے جانتے تھے۔ ان کی شاعری سے آگاہ تھے۔ لیکن شاعری سے کہیں زیادہ ان کی سیاست اور صحافت کو اہمیت دیتے تھے۔ مجھے ان سے ملاقات کا دعویٰ نہیں اور نہ ہو سکتا تھا۔ کیونکہ جب وہ اللہ کو پیارے ہوئے تو اس وقت میرا سن دس سال سے زیادہ نہیں تھا۔ بہرحال میں نے انہیں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک بار دور سے، ایک بار قریب سے۔ ایک بار جلوس میں، دوسری بار اپنے گھر مسلم ٹاﺅن لاہور کہ انہیں اور بعض دوسرے رہنماﺅں کو والد مرحوم نے کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ ویسے میں ان سے بخوبی آشنا ہوں کیونکہ ”دی کامریڈ“ میں ان کے قریب قریب اداریوں کا مطالعہ کر رکھا ہے اور ان کے بارے میں جو سوانحی کتب موجود ہیں۔ وہ بھی نظر سے گزر چکی ہیں اس لئے محسوس کرتا ہوں، برسوں ان کی صحبت میں زندگی گزاری ہے۔
محمد علی لندن میں فوت ہوئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے۔ اس موقع پر مصر کے شاعر احمد شوق پکار اٹھے:
اے بیت المقدس کی سرزمین
تجھے مبارک ہو
کہ تیری آغوش میں ایک نیا مہمان آیا ہے
وہ تیرے لئے اجنبی نہیں
کہ اس نے تیرے فرزندوں کی امانت کی ہے
وہ مشرق کے عوام کے لئے ہر طاقت سے برسرپیکار رہا
اور اسلام اس کا اوڑھنا بچھونا تھا
نیل کی لہریں اسے یاد کریں گی
اور ترک اس کی سچی تڑپ کو کبھی نہیں بھولیں گے
ہندوستان اسے ہمیشہ یاد رکھے گا
کہ وہ اس کے لئے موت تک بے قرار رہا
اس چھوٹی سی نظم میں محمد علی کا پورا سیاسی کردار سمایا ہوا ہے۔ اس کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ برعظیم کے مسلمان دو بڑی برادریوں سے منسلک ہیں۔ ایک ہماری تینتیس کروڑ ہندوستانیوں کی ہے جس میں سات کروڑ مسلمان شامل ہیں۔ دوسری برادری دنیائے اسلام ہے جس میں پچیس تیس کروڑ انسان آباد ہیں۔ ہندوﺅں پر صرف ہندوستان کی آزادی کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک اداریے میں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا: ”میرا ایک پاﺅں ہندوستان میں ہے اور ایک پاﺅں مذہب اسلام میں۔ تمہاری کاشی، تمہارا گیا اور تمہارا اجودھیا سب یہیں ہیں۔ میرا مکہ، میرا مدینہ اور میرا بیت المقدس یہاں سے باہر ہے۔ میں ان کو نہیں چھوڑ سکتا لیکن میں کعبہ اور کاشی دونوں کی آزادی کی لئے لڑنے کو تیار ہوں۔“ تحریک خلافت میں محمد علی نے جو حصہ لیا۔ اس میں بھی دو مقاصد کارفرما تھے۔ اول: خلافت عثمانیہ کی حفاظت اور اس کے وقار کی بحالی اور سامراجی تسلط سے مسلمان قوموں کی نجات۔ دوم: ہندوستان کی آزادی۔ ان دونوں مقاصد کے لئے ترک موالات یا عدم تعاون کا حربہ استعمال کیا گیا۔ یعنی زندگی کے ہر دائرے میں انگریز سے عدم تعاون، تاآنکہ وہ حکومت کے ناقابل ہو جائے۔
محمد علی نے دنیائے اسلام کے مسائل میں مسلسل عملی دلچسپی لی۔ جنگ طرابلس اور جنگ ہائے بلقان کے دوران ترکوں کے زاویہ¿ نگاہ کو نہایت مدلل طریقے سے پیش کیا۔ ترکوں کے لئے چندہ فراہم کیا۔ میڈیکل مشن استنبول بھیجا۔ مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ترکیہ کے جنگی تمسکات خرید کر جنگی احساس کو تقویت دیں۔ غرض محمد علی نے دنیائے اسلام کی ہر مصیبت کو اپنی مصیبت جانا اور اپنے آپ کو ہمیشہ دنیائے اسلام کا شہری محسوس کیا۔ وہ احیائے خلافت کے نصب العین سے کبھی غافل نہ ہوئے اور ان کی خواہش تھی کہ احیائے خلافت کی تحریک کا آغاز ہندوستان سے ہو۔ یہ کام کیسے ہو؟ اس سلسلے میں محمد علی کے ایک اداریے سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
”اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ مسلمانوں کے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا ہو اور جس وقت تحریک خلافت کو ایک دفعہ پھر منظم کر دیا جائے گا تو اس سے عالم اسلام کی رہنمائی ہو گی۔ جیسا کہ جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ موتمر اور اس کی مجلس تنفیذیہ میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے ایک نظام کا سلسلہ قائم ہو گیا ہے اور یہ مختصر سا بیج مستقبل میں ازسرنو قائم کردہ خلافت کی جڑ ہو گا جو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم ہو گی۔ اسلام کا یہی سب سے بہتر نظام ہے اور ہمیں بجائے اس کے کہ ہم دوسرے چھوٹے چھوٹے نظام قائم کریں۔ اس کے قیام کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ اب ہمیں اس مینار کو اٹھانے کے لئے چاروں طرف سے لگ جانا چاہئے۔ جس کی ابتدا ہندوستان سے ہو اور انشااللہ بہت جلد ہم یہ دیکھیں گے کہ اس عمارت کی چوٹی تاج خلافت سے مزین ہو گی اور یہ خلیفہ عالم اسلام کی آزادی راہ سے منتخب ہو گا۔“ (ہمدرد 20ستمبر 1924ئ)
شکست و فتح نصیبوں سے تھی ولے اے امیر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا