اردو نظم کے بہت بڑے شاعر مجید امجد سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کیوں لکھتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا میں عملِ خیر کے تسلسل میں لکھتا ہوں۔ بعض لوگ، اگرچہ بہت ہی کم نفسا نفسی کی اس دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو عملِ خیر کے تسلسل میں زندہ رہتے ہیں۔ انکی زندگی کی ہر آن اور ہر سانس اس عملِ خیر کے جاری و ساری رکھنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے جیتے ہیں اور دوسروں کو معلوم بھی نہیں ہونے دیتے کہ انہوں نے اپنی زندگی اُن کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ پروفیسر غفور احمد اُن لوگوں میں سے تھے جو اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے جیتے بھی اس شان و شوکت کے ساتھ کہ جن کے بارے میں مجید امجد نے کہا تھا
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہ پیغمبراں، گلاب کے پھول
پروفیسر غفور احمد صاحب سے مکة المکرمہ اور لاہور میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ پروفیسر صاحب پر انفرادی یا اجتماعی غم کا کوہِ گراں ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑا ہو مگر وہ اپنے دل کی کیفیت کا سامنے کو اندازہ نہ ہونے دیتے اور اسکے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ وہ مخاطب کے تلخ سے تلخ سوال پر بھی بے مزہ نہ ہوتے اور نہ ہی غضبناک ہو کر اسکا جواب دینے سے انکار کرتے بلکہ بڑی ملائمت اور اپنائیت کا انداز اختیار کرتے ہوئے سامع تک اپنا ماضی الضمیر پہنچاتے اور اکثر اوقات اسے اپنا ہمنوا بنا لیتے۔ مخالفین کے دلوں میں بھی گھر کرنے کا ہُنر یا فن انہیں اچھی طرح آتا تھا۔
1970ءکا انتخاب کئی پہلو¶ں سے جماعت اسلامی کیلئے بہم چشم کشا تھا۔ اس انتخاب سے پہلے لاہور میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کی۔ یومِ شوکتِ اسلام کے اس جلوس سے حوصلہ پا کر جماعت اسلامی نے 1970ءکے انتخاب کیلئے سارے ملک میں تقریباً ہر حلقے سے امیدوار کھڑے کئے تاہم اس الیکشن میں بڑے بڑے بُرج الٹ گئے۔ اس انتخاب میں جماعت اسلامی کے صرف چار امیدوار منتخب ہوئے، ان چار افراد میں سب سے نمایاں شخصیت پروفیسر غفور احمد کی تھی۔ ان انتخابات کے نتائج دیکھ کر پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کو اندازہ ہوا کہ اسلام اور اسلامی نظام سے عقیدت و محبت کا اظہار الگ شے ہے اور انتخابات میں ووٹ استعمال کرنا ایک بالکل الگ عمل ہے۔ ذات برادری اور دوسری بہت سی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر ہی لوگ ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بچا کھچا پاکستان ہی نیا پاکستان قرار پایا۔ ٹوٹی ہوئی اس کشتی کے ناخداﺅں کا سب سے بڑا امتحان ٹوٹے ہوئے پتوار کے ساتھ اس ڈگمگاتی ناﺅ کو ساحلِ مُراد تک پہنچانا تھا۔ اس وقت پاکستانی قوم کا ساحلِ مُراد ایک متفقہ آئین تھا۔ 1973ءکے آئین کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی بنانے اور ہر دینی و سیاسی مکتبِ فکر سے اس پر مہر تصدیق ثبت کروانے میں پروفیسر غفور احمد کی ہردلعزیزی ، جانفشانی اور شریں بیانی بہت کام آئی۔
ہمیں قیام سعودی عرب کے دوران جماعت اسلامی کے اکابر جناب میاں طفیل، مولانا خلیل احمد حامدی اور پروفیسر غفور احمد کی خدمت میں حاضری کے بہت مواقع ملے۔ میاں طفیل محمد فی الواقع ایک خدا مست، درویش صفت اور فرشتہ سیرت انسان تھے۔ اسی طرح مولانا خلیل احمد حامدی کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ وہ بہت سنجیدہ طبیعت کے مالک ہیں اور کبھی نہیں مسکراتے مگر ہم نے سعودی عرب میں دیکھا کہ اُن کی طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور نکتہ آفرینی میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔
ہمارے ہاں لباس بدلنے کی طرح اپنی سیاسی شناخت بدلنا اور آئے روز پارٹیاں بدلنا اور ایک سیاسی آشیانے سے اُڑ کر دوسرے آشیانے پر جا بیٹھنا کوئی عیب ہی نہیں سمجھا جاتا۔ مگر پروفیسر غفور احمد 1950ءمیں 23 برس کی عمر میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور پھر مرتے دم تک اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ 1977ءکے متنازعہ انتخابات میں بے شمار دھاندلیوں کے باوجود کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس انتخاب کے بعد اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے متحد ہو کر تحریک چلائی اور فراڈ انتخابات کو مسترد کر دیا۔ اس دوران قائم ہونے والے پاکستان قومی اتحاد کے وہ جنرل سیکرٹری نامزد ہوئے۔ اُن سے پہلے جمعیت علمائے پاکستان سے تعلق رکھنے والے رفیق احمد باجوہ سیکرٹری جنرل تھے انہیں بھی بہت شہرت ملی تھی مگر انہوں نے درپردہ خفیہ طور پر ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر لی۔ یہ خفیہ ملاقات اُن کے زوال کا سبب بن گئی۔ انہیں قومی اتحاد کی سیکرٹری شپ سے ہٹا دیا گیا اور اسکے بعد وہ سیاسی و سماجی منظر سے ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئے۔
پاکستان قومی اتحاد کے صدر مفتی محمود صاحب جبکہ سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد تھے۔ اس پارٹنر شپ نے پاکستانی سیاست کو افہام و تفہیم، سمجھداری، بُردباری، معاملہ فہمی اور تحمل مزاجی کے ثمرات دئیے۔ پیر پگاڑا اور اصغر خان جیسے عالمی مرتبت سیاستدان بھی اس اتحاد میں شامل تھے۔ تاہم مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد نے ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے کامیاب مذاکرات کئے اور انہیں قائل کر لیا کہ اُن کے خلاف ملک کے طول و عرض میں چلنے والی تحریک دھن دھونس سے نہیں دبائی جا سکتی آپ فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ وہ بظاہر ان مطالبات کو تسلیم کر چکے تھے۔ پروفیسر غفور احمد نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان طے پا جانے والے معاہدے کو ضبط تحریر میں لے آئے تھے بس اس معاہدے پر رسمی دستخط ہونا اور اسکا اعلان ہونا باقی تھا۔ یہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر ذوالفقار علی بھٹو اچانک خلیجی ممالک کے دورے پر چلے گئے اس دوران طرح طرح کی سازشیں پروان چڑھتی رہیں اور افواہیں پھیلتی رہیں۔ پروفیسر صاحب نے بھٹو کی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن مولانا کوثر نیازی کو باور بھی کرایا کہ دنوں میں نہیں گھنٹوں میں کچھ ہو سکتا ہے اس لئے تاخیر اور لیت و لعل سے کام نہ لیں۔ بالآخر یہ تاخیر بھٹو صاحب کیلئے جان لیوا ثابت ہوئی۔
پروفیسر غفور احمد جمہوریت، جمہوری اداروں اور انتخابی سایست پر لازوال یقین رکھتے تھے۔ جب پاکستان قومی اتحاد کی تقریباً سبھی جماعتوں نے جنرل ضیاالحق کے زیر انتظام نگران سیٹ اپ میں وزارتیں قبول کر لیں تو جماعت اسلامی کی طرف سے پروفیسر غفور احمد کو وزیر نامزد کیا گیا۔ انہوں نے وزارتِ پیداوار کی ذمہ داری بادل نخواستہ قبول کی، وہ نو ماہ تک وزیر رہے پھر استعفیٰ دے کر کوچہ¿ سیاست میں واپس آ گئے۔ وہ آزاد فضا میں آ کر بہت خوش تھے اور اگلے انتخابات کی تیاری کر رہے تھے۔ تاہم جنرل ضیاالحق اپنے وعدے سے مکر گئے اور 1978ءمیں ہونے والے انتخابات کو وہ ٹالتے ٹالتے 1985ءپر لے گئے۔ پروفیسر غفور احمد پاکستان کی اُن معدودے چند شخصیات میں سے ایک تھے جن کا احترام اپنے حلقوں میں ہی نہیں غیروں کے حلقے میں بھی پایا جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا عملِ خیر انشاءاللہ جاری و ساری رہے گا اور پاکستان ایک روز اس منزل پر ضرور پہنچے گا جس کی نشاندہی پروفیسر صاحب نے ساری قوم کے ساتھ مل کر 1973ءکے آئین میں کی تھی۔ حقیقی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی منزل۔ اللہ اُن کی آخری منزل آسان کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مسند پر متمکن کرے۔ آمین!