قاہرہ (آن لائن) مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے بارے میں ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران مظاہروں کو براہ راست ٹی وی پر ملاحظہ کیا کرتے تھے اور ان کے اس انکار میں کوئی صداقت نہیں تھی کہ وہ اپنے خلاف تحریک کی شدت اور مظا ہرین پر تشددسے بے خبر تھے۔چوراسی سالہ سابق علیل صدر کے بارے میں یہ نئے انکشافات موجودہ صدر محمد مرسی کے قائم کردہ ایک کمشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں کئے گئے ہیں۔اس رپورٹ کے بعض مندرجات منظرعام پر آئے ہیں۔صدر مرسی نے یہ کمشن جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مقرر کیا تھا۔انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر مظاہرین کی ہلاکتوں کے نئے شواہد سامنے آئے تو وہ نئے سرے سے ذمے داروں کے خلاف مقدمات چلائیں گے۔ سولہ رکنی کمشن میں جج صاحبان ،وکلائ، وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس کے نمائندے اور مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کے بعض لواحقین بھی شامل تھے۔ کمشن نے اپنی رپورٹ پانچ ماہ میں مکمل کی ہے اوراس میں عینی شاہدین کے حلفیہ بیانات اور دوسرے شواہد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔حسنی مبارک نے اپنے خلاف ساڑھے آٹھ سو مظاہرین کی ہلاکتوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے قریبی مشیروں نے انھیں صورت حال کی سنگینی سے مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا تھا اور انھیں اندھیرے میں رکھا تھا۔ انھوں نے اپنے اوپر لگائے گئے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا تھا کہ انھوں نے مظاہرین کے خلاف تباہ کن طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔ حسنی مبارک کو 2 جون 2012ءکو مظاہرین کی ہلاکتوں کے اس مقدمے میں عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کمشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سکیورٹی فورسزنے حسنی مبارک کے خلاف اٹھارہ روزہ احتجاجی تحریک کے دوران مظاہرین کو کچلنے کے لیے ان پر براہ راست گولیاں چلائی تھیں اور سابق صدر کی رخصتی کے بعد مسلح افواج کی سپریم کونسل کے سترہ ماہ تک اقتدار کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہا تھا لیکن فوج مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلانے کے الزامات کی تردید کرتی رہی تھی۔