لاہور (سٹاف رپورٹر + خصوصی رپورٹر + نیٹ نیوز) لاہور کے علاقے عسکری نائن میں مالکہ نے دس سالہ گھریلو ملازمہ کو تشدد کر کے قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔ دس سالہ ارم کا تعلق اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور سے تھا اور وہ گذشتہ ڈھائی ماہ سے لاہور میں الطاف محمود اور ناصرہ کے گھر کام کر رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق رات کو ارم کو مردہ حالت میں سروسز ہسپتال لایا گیا۔ ناصرہ نے پولیس کو بتایا کہ ارم کو پیسے چوری کرنے کی عادت تھی اور اب بھی اس نے 70 روپے چوری کیے تھے میں نے اس کے ہاتھ پاو¿ں باندھ کر ارم پر تشدد کیا۔ تاہم مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس تشدد سے لڑکی کی جان ہی چلی جائےگی۔ ناصرہ نے مزید بتایا ارم نے تین مرتبہ پیسے نکالے۔ پہلی دو بار میں نے اسے کچھ نہیں کہا لیکن کل جب تیسری مرتبہ نکالے تو میں نے اس سے پوچھا تو کہنے لگی میں نے کھا لئے ہیں۔ میں نے ارم کو کہا تم نے نہیں کھائے اور اسے مارنا شروع کر دیا لیکن وہ نہیں مانی۔ کبھی کہے یہاں رکھ دیے کبھی کہیں وہاں رکھ دیے۔ میں اسے بولتی رہی اور ساتھ ہی اسے مارتی رہی۔ مارتی تو میں اسے پہلے بھی تھی لیکن اتنا نہیں۔ رات تو مجھے پتہ ہی نہیں چلا اتنا غصہ آیا کہ اس سے منواتے منواتے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں نے اسے مار دیا۔ پولیس کے مطابق رات ایک بجے کے قریب شمالی چھاو¿نی کے علاقے عسکری نائن کا رہائشی الطاف محمود اور ان کا بیٹا ابرار ارم کو سروسز ہسپتال لے کر آئے۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق جب ارم کو ہسپتال لایا گیا تو اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات اور جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے اور اس کی موت ہو چکی تھی۔ ہسپتال کے اے ایم ایس ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔ سروسز ہسپتال کے عملے نے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی اور پولیس نے رات ہی الطاف محمود ان کے بیٹے ابرار اور بیوی ناصرہ کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی جبکہ ارم کی نعش کو پوسٹ مارٹم کے لئے میو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ایس پی کینٹ عمر سرفراز چیمہ نے بتایا کہ معمولی شک کی بنیاد پر الطاف اور ان کے گھر والوں نے ارم کو دو دن تک تشدد کا نشانہ بنایا، اس کو باندھ کے رکھا اور اسے پانی کے پائپ سے مارتے رہے اور جب اس کی حالت بہت غیر ہو گئی تو اسے ہسپتال لے گئے تاہم ملزمہ ناصرہ نے بتایا کہ ارم پر تشدد صرف اسی نے ہی کیا۔ اس میں ان کے شوہر اور بیٹا شامل نہیں تھے۔ بچی کی والدہ زبیدہ نے بتایا کہ الطاف محمود اور ان کے خاندان نے انہیں ان کی بیٹی ارم سے ملنے نہیں دیا اور وہ رات گھر کے باہر کھڑے بچی پر تشدد کی آوازیں سنتے رہے۔ یہ مجھے بچی سے ملنے بھی نہیں دیتے تھے۔ رات جب ہم ماں بیٹا ارم سے ملنے آئے تو ہمیں باہر مار پیٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ چیخ رہی تھی، پھر جب یہ ہسپتال جانے کے لئے گھر سے نکلے تو ہم ان کے پیچھے پیچھے سروسز ہسپتال گئے لیکن میری بچی مر چکی تھی۔ واضح رہے ارم کے والد رمضان کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار نے کہا کہ پولیس اس دل سوز واقعہ میں جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شرےف نے لاہور کے علاقہ عسکری 9 مےں گھر کے مالکان کی جانب سے تشدد کے باعث 10 سالہ بچی ارم کے جاںبحق ہونے کے واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کےا ہے۔ وزےر اعلیٰ نے متاثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے مالکان کی جانب سے تشدد کر کے ملازمہ کو جاںبحق کرنے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ وزےر اعلیٰ نے پولےس حکام کو ہداےت کی کہ اس افسوسناک واقعہ میں ملوث ملزموں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل مےں لائی جائے اور متاثرہ خاندان کو ہر صورت انصاف کی فراہمی ےقےنی بنائی جائے۔
ملازمہ قتل / اعتراف
70 روپے کیلئے ملازمہ کو سفاک مالکہ دو روز پائپوں سے مارتی رہی‘ جسم پر جگہ جگہ نیل زخم تھے
70 روپے کیلئے ملازمہ کو سفاک مالکہ دو روز پائپوں سے مارتی رہی‘ جسم پر جگہ جگہ نیل زخم تھے
Jan 04, 2014