ربیع الاول شریف کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کو ہمیں عطا فرمایا۔ اگر وہ محبوب تشریف نہ لاتے تو رمضان، قرآن، ایمان، غرض یہ کہ کوئی چیز بھی نہ ملتی۔ یہ سب انہی کا صدقہ ہے بلکہ اگر وہ پیدا نہ کئے جاتے تو ہم کیا کائنات کا کوئی ذرہ بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰؑ کو کوہ طور پر دیدار سے نوازا گیا تو انہوں نے اللہ تعالی کی بارہ گاہ میں عرض کیا۔ الٰہی تو نے مجھے ایسی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی کو ایسا مقام عطا نہیں ہوا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے موسی ہم نے تیرے دل کو متواضع پایا تو اس مقام سے نواز دیا۔ اور ارشاد فرمایا ”جو آپ کو دیا گیا اس پر شکر کرو اور زندگی کے آخری لمحات تک توحید اور محمد کی محبت پر قائم رہو“۔ حضرت موسیؑ نے عرض کیا کہ اے اللہ! کیا محمد سے محبت تیری توحید کے ساتھ ضروری ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”اگر محمد اور ان کی امت نہ ہوتی تو جنت، دوزخ، سورج، چاند، رات، دن، فرشتے، انبیائؑ کسی کو بھی پیدا نہ کرتا اے موسیٰ تجھے بھی پیدا نہ کرتا“۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”آپ نہ ہوتے تو میں دنیاہی نہ بناتا“۔ آپ غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں اپنا پیارا محبوب عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ہم اپنے جسم کو ہی دیکھیں۔ آنکھ، کان، بازو، پاﺅں، وغیرہ وغیرہ ایسی نعمتیں ہیں کہ ساری کائنات ان کی قیمت نہیں بن سکی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمتیں مفت عطا فرمائیں ہیں۔ ان نعمتوں کا شمار نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ”اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے“۔ اور پھر کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نعمت پر یہ نہیں فرمایا کہ اے انسان و جن میں نے تمہیں یہ نعمتیں دے کر تجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ یعنی نعمتیں تو دی ہیں مگر احسان نہیں فرمایا۔ اور جب کائنات میں اپنا پیارا حبیب بھیجا تو ارشاد فرمایا کہ ”اللہ نے مومنین پر بڑا احسان کیا ہے۔ کہ ان میں بڑی عظمت والا رسول بھیجا ہے“۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ نعمت عظمی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے احسان جتلایا ہے۔ احسان اس نعمت پر ہوتا ہے کہ جس پر دینے والے کو خود بھی ناز ہو۔ حضور کی آمد کا اعلان مختلف طریقوں سے فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ”بے شک تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول تشریف لائے“ اگر وہ ہم میں سے تشریف نہ لاتے تو ہم کبھی فیض حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ ارشاد ہے کہ بے شک تم میں سے نفیس ترین اور بہترین جماعت سے آئے۔ تمام دنیا میں عرب افضل، عرب میں قریش افضل اور قریش میں بنو ہاشم افضل، حضور بنو ہاشم میں پیدا ہوئے وہ جس مہینے میں تشریف لائے وہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل، جو کتاب لائے وہ تمام کتابوں سے افضل، جو دین لائے وہ تمام دینوں سے افضل، جس شہر میں آئے وہ تمام شہروں سے افضل، اور جس زمانے میں آئے وہ تمام زمانوں سے افضل، ان کی امت تمام امتوں سے افضل، ان کا قانون قانون الٰہی، ان کا دیکھنا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا، ان کا بولنا اللہ تعالیٰ کا بولنا، ان کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ، ان کا پھینکنا اللہ تعالیٰ کا پھینکنا، ان کی بیت اللہ تعالیٰ کی بیت، حضرت محمد مصطفے نے دریافت فرمایا کہ اے جبریل تیری عمر کتنی ہے؟ عرض کیا کہ حضور جب مجھے تخلیق کیا گیا تو کائنات میں کچھ نہ تھا۔ اس کے سوا میں کچھ نہیں جانتا کہ چوتھے حجاب میں ہر ستر ہزار برس بعد ایک ستارہ چمکتا تھا اس کو میں نے بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے اپنے رب کی عزت و جلال کی قسم وہ ستارہ میں ہی تھا۔ حضور اول بھی ہیں اور آخر بھی، سب سے پہلے پیدا کئے گئے اور سب سے آخر بھیجے گئے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ معراج کی رات حضور کو کچھ احباب ملے انہوں نے آپ پر سلام پڑھا جن کے الفاظ یہ تھے اسلام علیک یا اول، اسلام علیک یا آخر، اسلام علیک یا حاشر، جبریلؑ نے عرض کیا کہ حضور یہ سلام کرنے والے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ تھے۔ معلوم ہوا کہ انبیاءاسلام سابقہ بھی آپ کو اول و آخر کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ امام الانبیاءبھی ہیں۔ یہ نور حضرت آدمؑ سے لے کر پاک روحوں اور پاک پشتوں میں منتقل ہوتا رہا۔ آپ کے بیٹے حضرت شیثؑ سے ہوتا ہوا حضرت عبدالمناف، حضرت ہاشم، حضرت عبدالمطلب، حضرت عبداللہ سے حضرت آمنہ تک منتقل ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”بے شک آیا تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اور اس کی روشن کتاب (قرآن حکیم) وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین۔ آپ کی وجہ سے ہی تمام مخلوقات پر نعمتیں عام ہوئیں۔ (وہ بھی کیا عجیب وقت تھا) جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں سے وعدہ کیا کہ میں نے تم کو کتاب اور علم سے جو کچھ دیا ہے اور پھر تمہارے پاس آئے (آخری) رسول جو تصدیق کرے تمہاری کتابوں کی تو تم سب اس آخری پیغمبر پر ایمان لاﺅ گے اور لازماً اس کی مدد کرو گے (اے رسولو) کیا تم سب نے اس وعدہ کا اقرار کیا اور میرا عہد قبول کیا؟ سب بولے ہم نے اقرار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (آیت نمبر 81 سورة آل عمران)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رب ہونے کا اقرار ساری انسانیت سے کروایا جب کہ رسول اکرم کی عظمت و بلندی کا وعدہ انسانیت کی سب سے بہترین جماعت یعنی انبیاءکرامؑ سے لیا تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ قیامت تک کامیابی کا راستہ صرف اور صرف دامن مصطفی سے وابستہ اور چمٹے رہنے میں ہے۔ عالم اسلام آج جن مشکلات سے دو چار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ آپ کے اسوہ حسنہ اور سنتوں کی پیروی نہ کرنا ہے۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب صراط مستقیم پر چلنے اور حضرت محمد کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عالم اسلام کو متحد فرمائے اور یہود، ہنود و نصاریٰ کی چالوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین!