رسول اکرمؐ کے سبھی فرمان حکمت و عرفان سے مالا مال ہیں مگر کچھ احادیث ایسی ہیں جو مفاہیم و مطالب کے اعتبار سے نہایت گہری ہیں انہی سے ایک ذیل میں درج کی جاتی ہے۔’’تم میں سے کوئی اس وقت مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو اپنے ماں باپ اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو‘‘۔
آنحضورؐ کے اس فرمان کو ہم صدیوں سے پڑھتے سنتے چلے آئے ہیں مگر آج جب مجھے اس میں غورو فکر کی توفیق نصیب ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ فرمان تو ہمارے تمام تر دینی و اخلاقی احکامات، عبادات و مجاہدات، سزا و جزا غرض حیات کلی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے جزئیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر مسلمان کہلانے کے حق دار تو ٹھہر جاتے ہیں اور ارکان اسلام کی ادائیگی میں بھی لگ جاتے ہیں مگر اس سے اگلی منزل یعنی مقام اولیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے جس سرمایہ جانفرا کی ضرورت ہے وہ ہے ’’مودت رسول‘‘ کہ جس کے بنا مقام مومن کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔آنحضورؐ نے اپنی محبت و مودت کو عمومی مسلمانوں کے لئے لازم نہیں کیا۔ ان کے علم میں تھا کہ ہر کلمہ گو مسلمان عبادات کی پابندی و ادائیگی کے باوجود میری محبت کے اس معیار تک شاید نہ پہنچ سکے جو مقام مومن کے لئے مطلوب ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو قبول اسلام یعنی کلمہ گوئی میں بھی یقین و ادب کا پہلو بدر جہا موجود ہوتا ہے اور عبادات کی ادائیگی میں بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک مسلمان کے ایمان و یقین کے آئینہ دار ہیں اور تقویٰ میں درجات موجود ہیں مقام مومن بہر طور مقام مسلمان سے اعلیٰ و اعظم مقام ہے جس کے حصول کے لئے آنحضورؐ نے عبادات و وظائف کی کثرت کو لازم نہیں کیا نہ ہی جہاد یا قتال فی سبیل اللہ کو ضروری قرار دیا ہے مذہب عمر بھر روزے رکھنے کا حکم دیا ہے اور نہ ہی نفلی عبادت کی کثرت کے ساتھ مشروط کیا ہے بلکہ اس مقام تک رسائی کے لئے فقط اپنی ’’محبت‘‘ کو زینہ قرار دیا ہے۔
اب اس حدیث مبارکہ کی جزئیات پر مزید غور کرتے ہوئے ہمیں یہ جاننا ہے کہ آخر یہ محبت کیا چیز ہے جس کا تقاضا آپؐ ہم سے کر رہے ہیں۔محبت بادی النظر میں ایک جذبہ ہے جو دل میں پروان چڑھتا ہے اور اس جذبے کے عملی اظہار کو اردو لفظ ’’پیار‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے مجھے اپنے بچے سے بہت محبت ہے یقیناً یہ محبت میرے دل میں موجود ہے لیکن اس محبت کے عملی اظہار کے طور پر ہی اسے اٹھاتا ہوں گود میں بٹھاتا ہوں، بوسہ دیتا ہوں کھانے کو میٹھا لے کر دیتا ہوں۔ سر پر ہاتھ پھیرتا ہوں وغیرہ وغیرہ… گویا میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے پیار کرتا ہوں۔ یوں محبت عمل پر منتج ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نبی اکرمؐ سے عملی محبت کا اظہار کیسے ممکن ہے؟
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی زبان مبارک سے کہلوایا کہ ’’فرما دیجئیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا…‘‘ہر کس و عام کی زندگی کا محور منتہا کیا ہے؟ یہی کہ اللہ ہم سے محبت کرے کیونکہ جب اللہ ہم سے محبت کریں گے تو خاتمہ بالخیر ہو گا جو ہر کسی کی تمنا ہے مگر کمال یہ ہے کہ اللہ کی محبت اسی صورت میں نصیب ہو گی جب اوپر بیان کردہ آیت مبارکہ کی روشنی میں اللہ کے رسول کی اتباع کی جائے گی۔یہاں پر مزید غورو فکر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لئے ایمان والوں کو اتباع رسولؐ کا ہی حکم کیوںدیا ہے یہ کام فقط اطاعت سے مشروط کیوں نہیں کیا گیا۔ یہاں ہمیں اطاعت اور اتباع کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے اطاعت کی سطح تو شاید ہمیں وہیں نصیب ہو جاتی ہے جس کا ذکر میں نے ابتدا میں کیا ہے کہ کلمہ پڑھ لیا اور ارکان اسلام کی ادائیگی بھی کی۔ دراصل احکامات کی تعمیل کا نام ہی اطاعت ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اور اسکے رسولؐ کے احکامات کی پابندی کرنا عین اطاعت ہے۔ یقیناً یہ ذریعہ نجات ہے لیکن شاید محبت کچھ خاصے کی چیز ہے کہ اگر اللہ کی محبت درکار ہے تو آپؐ کی اتباع شرط ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اتباع کیا ہے؟ اتباع نہ صرف آپؐ کے احکامات کی تعمیل ہے بلکہ اتباع یہ ہے کہ زندگی کا ہر عمل ویسے ہی سر انجام دیا جائے جیسے آپؐ نے دیا۔