کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ’’صوبوں کی خود مختاری واپس لی گئی تو وفاق پر کالے بادل منڈلائیں گے‘‘ میاں صاحب کا یہ بیان حکومتِ سندھ کے لئے تسلّی اور تشفّی ہے اور وفاقی حکومت کو وارننگ۔ میاں صاحب آئین اور قانون کے بندے ہیں۔ جو انہوں نے مناسب سمجھا کہہ دِیا۔
کالے بادلوں سے عوام کو کیا؟
کالے بادلوں کی ترکیب میاں رضا ربانی کا سیاسی تجزیہ ہے کوئی نئے سال کی پیشگوئی نہیں ہے، اِس لئے کہ آج تک کسی بھی جیالے نے دعویٰ نہیں کِیا کہ ’’ساڈے میاں رضا ربانی جی نجومی وی نیں!‘‘ صوبہ سندھ سے دہشت گردوں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف رینجرز کو پہلے کے سے اختیارات دینا سندھ سے صوبائی خود مختاری کو واپس لینا نہیں ہے سندھ بلکہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔
آئین میں صوبوں کو دی گئی خود مختاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایک پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی بِنا پر‘ اُس صوبے کے جرائم پیشہ عناصر کو عوام پر کُھلا چھوڑ دِیا جائے اور دہشت گردوں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قربانیاں دینے والے غازی اور شہید رینجرز کی قربانیوں کو بھلا دِیا جائے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جنابِ آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور اُن کے انکشافات کے بعد جنابِ زرداری سے لے کر ، ہر جیالے نے رینجرز اور پاک فوج کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے وفاقی حکومت کے خلاف محاذ بنا لِیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا صِرف ایک مؤقف ٹھیک ہے اور وہ یہ کہ ’’اگر رینجرز نے کرپٹ عناصر کے خلاف بھی آپریشن کرنا ہے تو رینجرز کے افسران/ اہلکار پنجاب کے کرپٹ عناصر کے خلاف کیوں نہیں کرتے؟‘‘ وفاق نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت‘ سندھ میں دہشت گردوں اور تمام جرائم کاروں کا قلع قمع کرنے کے اختیارات دے دئیے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر زرداری میں کوئی ’’مُک مُکا‘‘ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ جِس سے سندھ ہی نہیں پاکستان بھر کے عوام خوش ہیں کیونکہ اِس فیصلے کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
میاں نوازشریف دوبار معزول ہُوئے اور ایک بار جلا وطن بھی۔ اب اُن کے پاس غلطی کی گُنجائش نہیں۔ غلطی کی گنجائش تو جناب آصف زرداری اور حزبِ اختلاف کے دوسرے سیاستدانوں کے پاس بھی نہیں لیکن اقتدار میں تو میاں نوازشریف ہیں۔ جو سیاستدان اور مذہبی رہنما آج میاں صاحب کے ساتھ ہیں کل نئے وزیراعظم یا فوجی صدر کے دربار میں ہونگے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا حُکم سُنایا گیا تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’مجھے کچھ ہوگیا تو ہمالہ روئے گا‘‘ لیکن ہمالہ کو رونے کا وقت ہی نہیں مِلا۔ اگر ہمالہ دو چار آنسو بہا بھی لیتا تو سیلاب آجاتا تو بہت سے غریب ہی ڈوب جاتے اور بے گھر ہو جاتے۔ جب بھی وفاق یا صوبوں پرکالے بادل منڈلائیں گے اور پھر برسیں گے تو عوام کو اُس سے کیا؟ وہ تو خوشحال ہو کر ساون کے گیت گانا اور جھولے جُھولنا چاہتے ہیں۔
’’ اعتزاز احسن بے قصور!‘‘
خبر ہے کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں ’’نیا کپتان‘‘ لانے اور وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ کو وفاقی سطح کا لیڈر بنانے کا فیصلہ کر لِیا ہے‘‘۔ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ جناب آصف زرداری کے مُنہ بولے بھائی جناب اویس مظفر ٹپّی ہوں گے یا مولا بخش چانڈیو؟ خبر میں نہیں بتایا گیا لیکن یہ بات وثوق سے کہی گئی ہے کہ سیّد قائم علی شاہ کو سینٹ کا رُکن منتخب کراکے سینٹ کا قائدِ حزبِ اختلاف بنایا جائے گا۔ اِس وقت پیپلز پارٹی کے بانی رُکن بیرسٹر اعتزاز احسن سینٹ میں قائدِ حزب اختلاف ہیں۔ سیّد قائم علی شاہ بھی ’’پرانے چاول‘‘ ہیں اوربھٹو خاندان اور اب جنابِ زرداری کے وفادار۔ رینجرز کے اختیارات کے معاملے میں شاہ صاحب وفاق کے خلاف جِس جرأت سے خم ٹھونک کر میدان میں اُترے، یہ اُن کا ہی طُرّہ امتیاز ہے۔
شاہ صاحب ’’خادمِ اعلیٰ پنجاب‘‘ کی طرح ’’وفادار اعلیٰ سندھ‘‘ کہلانے کے مستحق ہیں لیکن اگر جنابِ زرداری شاہ صاحب کو سینٹ کا رکن منتخب کرا کے چیئرمین سینٹ منتخب کروا دیتے اور میاں رضا ربانی کو سندھ اسمبلی کا رُکن منتخب کروا کے وزارتِ عُلیّہ سندھ کا تاج و تخت سونپ دیتے تو اِسے پارٹی کے ’’دو وفاداروں کا تبادلہ‘‘ سمجھا جاتا لیکن مَیں تو پارٹی سے ’’بارہواں کھلاڑی‘‘ ہُوں۔ میری کون مانے گا؟
بیرسٹر اعتزاز احسن کا ڈومیسائل پنجاب کا ہے۔ زرداری صاحب انہیں تو وزیراعلیٰ سندھ نہیں بنوا سکتے۔ فرض کِیا سیّد قائم علی شاہ سینٹ میں قائدِ حزب اختلاف بن جائیں تو اعتزاز احسن صاحب کو فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی وکالت کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کو بھی وقت دے سکیں گے۔ قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت سے اعتزاز صاحب اپنی پارٹی کے وکیل ہی ہیں لیکن بااخلاق ہونے کے باعث وہ پارٹی سے اپنی وکالت کی فیس وصول نہیں کرتے۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ جناب آصف زرداری، اعتزاز احسن صاحب کو سینٹ میں قائدِ حزب اختلاف کی نشست سے کیوں اُٹھوا رہے ہیں؟
اعتزاز صاحب نے تو چیئرمین بلاول کو مشورہ دِیا تھا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کے لئے پارٹی کو "Uncles" سے پاک کرنا ہو گا‘‘۔ بلاول نے ’’بابا سائِیں‘‘ سے مشورہ کِیا ہو گا اور ’’بابا سائِیں‘‘ نے کہا ہو گا کہ ’’ایک انکل تو میں فارغ کر دیتا ہُوں‘‘۔ بقول شاعر …؎
’’مَیں نے کہا کہ بزمِ ناز‘ چاہئے غیر سے تہی
سُن کے سِتم ظریف نے‘ مجھ کو اُٹھا دِیا کہ یوں‘‘
اعتزاز صاحب کا ایک منفی پوائنٹ یہ ہے کہ موصوف صدر زرداری کے ’’سُنہری دور‘‘ میں پارٹی کی ہائی کمان اور عہدیداروں کو خبردار کِیا کرتے تھے کہ ’’اگر ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہ دِلائی تو عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے کارکُن اور عوام ہمارے گریبان پکڑیں گے‘‘۔ عام انتخابات سے پہلے ہی بغیر گریبان کے کُرتوں کا رواج ہوگیا تھا۔ پارٹی کا کوئی بھی کارکُن اور عام ووٹر اعتزاز صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں کر سکا۔ اُنہوں نے اپنی چہیتی پارٹی کے لیڈروں کا گریبان پکڑنے کو بھی اپنے لئے باعثِ آزاد سمجھا۔ اُستاد شاعر جُرأت ؔنے پیپلز پارٹی کے قیام سے 90 سال پہلے پارٹی سے بیزار کارکُنوں کی طرف سے کہا تھا کہ … ؎
’’دِل تجھ سے جو بے درد سے اے یار لگایا
اِک جان کو سوطرح کا آزار لگایا‘‘
27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر کی برسی کے موقع پر گڑھی خُدا بخش کے جلسے میں بیرسٹر اعتزاز احسن واحد مقرر تھے جنہوں نے جناب بھٹو کی پیپلز پارٹی کے قیام کے 48 سال بعد پارٹی لیڈروں اور کارکُنوں کو پارٹی کا ایک راہنما اصول ’’سوشلزِم ہماری معیشت ہے‘‘ یاد دِلایا۔ اُن کی حمایت میں کوئی نہیں بولا۔ اب زرداری صاحب اور کیا کرتے؟ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کا سب سے بڑا اصول ’’بھٹواِزم ہماری معیشت ہے‘‘ اپنا لِیا تھا اور جنابِ زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کا بھی اُس سے کام چل رہا ہے تو ’’سوشلزِم کا شوشہ‘‘ کیوں برداشت کِیا جائے؟ اعتزاز احسن کو اگر سوشلزِم سے اِتنا ہی پیار ہے تو اپنی پارٹی بنا لیں۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے ’’یا اللہ ! یا رسولؐ! اعتزاز احسن بے قصور!‘‘ کے نعرے لگاتا ہُوا پیپلز پارٹی کے پرانے بچے کھچے کارکُنوں کا وفد دبئی کے لئے روانہ ہوگا یا نہیں؟۔