”مہذب لوگوں“ کے بھارتی شہر بنگلور میں نئے سال کی آمد پر درجنوں خواتین سے دست درازی

Jan 04, 2017

بنگلور (نیٹ نیوز + رائٹرز) نئے سال کی آمد کے موقع پر 31 دسمبر 2016ءکی رات مہذب پڑھے لکھے لوگوں کا شہر کہلانے والے بھارتی شہر بنگلور میں جب سڑکوں پر ہزاروں افراد خوشیاں اور جشن منا رہے تھے گاندھی روڈ اور بریگیڈ روڈ پر اوباش نوجوانوں نے درجنوں لڑکیوں سے دست درازی کی جس کی خبریں گزشتہ روز منظرعام پر آنے سے سارا بھارت ششدر ہوگیا۔ ریاست کرناٹک جس کا بنگلور دارالحکومت ہے، کے وزیر داخلہ جی پرمیشور نے اپنی حکومت کی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہہ کر جلتی پر تیل ڈالا کہ لڑکیوں کے ساتھ جو ہوا، اس کی ذمہ داری ان کے مغربی لباس پر بھی ہے۔ مغرب کی نقل کرینگے تو اس طرح کی چیزیں ہو جاتی ہیں۔ ریاستی وزیر کے بیان پر بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ بی بی سی کے مطابق بنگلور کے اخبارات نے یکم جنوری کو روتی ہوئی خواتین کی تصاویر شائع کیں جو کہہ رہی تھیں کہ مردوں نے ان کے ساتھ دست درازی اور غیر اخلاقی طرزعمل کا مظاہرہ کیا۔ فوٹو گرافر خاتون چیتالی وانسک نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ جب وہ چھیڑ چھاڑ کرنے والے مردوں سے لڑ رہی تھیں پولیس نے بھی مداخلت نہیں کی۔ خاتون لوالاکباما نے ٹوئٹر پر لکھا بھارت کا کوئی بھی شہر عورتوں کے لئے محفوظ نہیں۔ خاتون کویتا کرشنن نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر لکھا کہ کرناٹک کے وزیر داخلہ کو شرم آنی چاہئے جو بنگلور میں نئے سال پر وسیع پیمانے پر ہراساں کرنے والے واقعہ کا ذمہ دار مغربی لباس کو قرار دیتے ہیں۔ بنگلور کے پولیس کمشنر پراوین سود نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ علاقے سے لی جانے والی سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج اور تصاویر میں دست درازی کے واقعات کا ثبوت تلاش کررہے ہیں اور جیسے ہی ہمیں ثبوت ملے گا ہم کارروائی کا آغاز کرنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریں گے۔
بنگلور/ خواتین

مزیدخبریں