امریکہ کے الزامات اور پاکستان کا ردّ عمل

پاکستان امریکہ کا غلام نہیں ہے مگر وہائٹ ہائوس کے مکین ایسا سمجھنے پر بضد ہیں۔ پاکستان کے عوام اسے دوست نما دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا دوست ہے اور اسے اپنا تزویری اتحادی سمجھتا ہے۔ یہ دونوں مل کر پاکستان کے خلاف محاذ گرم کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں اگر ہمیں اپنے آزمودہ دوست اور خیرخواہ چین کی پشتیبانی حاصل نہ ہوتی تو یہ شیطانی اتحاد ہمارے ملک کی وحدت اور سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن جاتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص کرم نوازی ہے کہ وہ اپنے کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی اس مملکت کی خصوصی نگہبانی کرتا ہے اور مشکل ترین حالات میں اسے سہارا فراہم کرتا ہے۔ یہ امر طے ہے کہ قیامِ پاکستان کے اول روز سے اسلام دشمن طاقتیں اس مملکت کے آزاد وجود کے درپے ہیں۔ نہ برطانیہ تقسیم ہند کا خواہش مند تھا اور نہ ہی امریکہ نے اس مملکت خداداد کے قیام کو خوشدلی سے قبول کیا۔ بابائے قوم کے وصال اور قائد ملت کی شہادت کے بعد یہ دونوں شاطر طاقتیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان لوگوں کو آگے لائیں جن کی سوچ قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد سے کوسوں دور تھی۔ نتیجتاً پاکستان سینٹو اور سیٹو جیسے اتحادوں میں شامل ہوکر عالمی بساطِ سیاست پر امریکہ اور برطانیہ کا من پسند کھیل کھیلنے لگ گیا۔ عوام کا اس ساری صورتحال میں کوئی کردار نہ تھا کیونکہ اُن کی تو اقتدار کی غلام گردشوں تک کوئی رسائی ہی نہ تھی۔ امریکہ نے پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ذریعے ریاستِ پاکستان اور اِس کے عوام کو خوب استعمال کیا‘ جی بھر کے اِن کا استحصال کیا۔ جب ضرورت محسوس ہوئی تو اپنے مفادات کی خاطر اِسے اتحادی قرار دے ڈالا اور جب ضرورت پوری ہوگئی تو دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ 9/11کے بعد جب بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنانے کا منہ زور فیصلہ کیا تواُن دنوں پاکستان پر ایک فوجی آمر مسلط تھا۔اس نے اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کی خاطر بآواز بلند ’’لبیک یا امریکہ لبیک‘‘ کہہ کر اپنا کندھا امریکہ کو پیش کردیا تاکہ وہ ڈیزی کٹر اور دیگر مہلک اسلحے سے افغان مسلمانوں کو آگ اور خون میں نہلا دے۔ وہ آمر اور اُس کے حواری ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے‘‘ کا راگ زور زور سے الاپنے لگے اور اُس بیانیے سے اختلاف کرنے والوں کو رجعت پسند‘ ملک دشمن اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازنے لگے۔ وقت کا پھیر ہے۔ امریکہ نے کام نکلنے کے بعد حسب روایت آنکھیں پھیر لیں۔ امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر پاکستان نے 70ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کر دیں‘ ایک کھرب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرلیا تو امریکہ نے اِن ’’خدمات‘‘ کے اعتراف کی بجائے الٹا اُس پر دہشت گردوں کا پشت پناہ ہونے کا الزام عائد کردیا اور اُسے تعاون نہ کرنے کی صورت بہت کچھ کھو دینے کا نوٹس دے دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس کے لاابالی پن کے باعث خود امریکہ کے سنجیدہ حلقے اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں‘ وقتاً فوقتاً پاکستان مخالف ٹویٹس داغتے رہتے ہیں۔نئے سال کے موقع پر بھی اُنہوں نے اپنے پہلے ٹویٹ کیلئے پاکستان کا ہی انتخاب کیا اور سفارت کاری کی نزاکتوں اور آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ’’اتحادی‘‘ کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان امریکی انتظامیہ کی اندرونی جھنجھلاہٹ اور کھسیانے پن کا غماز ہے۔وہ افغانستان میں تقریباً دو عشروں سے موجود ہے اور اربوں ڈالر جھونک دینے کے باوجود وہاں امریکہ مخالف عناصر کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اُس کے یورپی اتحادی اِس بے مقصد جنگ سے یکسر اکتا چکے ہیں اور کثیر ملکی افواج میں سے اپنے فوجی دستوں کو نکالنے کے حیلے تلاش کررہے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج جدید ترین مہلک اسلحہ استعمال کرنے کے باوجود افغان عوام کے جذبۂ حریت کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ امریکی سی آئی اے‘ بھارتی را‘ اسرائیلی موساد اور افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے تحت افغان سرزمین پر قائم دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کو بلا شبہ امریکی حکومت کی آشیر باد حاصل ہے جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ اِسی بنا پر جنوب مشرقی ایشیاء کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کوئی حقیقی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ تو خود مشرق وسطیٰ میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کی پرورش کرنے والا ہے۔ درحقیقت امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے بہانے اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ یہاں بیٹھ کر بھارت کے تعاون سے چین کا گھیرائو کر سکے۔ اِسی مقصد کیلئے اُس نے بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع دیا ہے۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتا ہے‘ چین کی اُبھرتی ہوئی فوجی اور اقتصادی طاقت کے آگے بند باندھنا چاہتا ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (CPEC) کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے گُرو تصور کئے جانے والے ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ امریکہ اپنے دشمنوں کیلئے تو خطرناک ہے ہی مگر اپنے دوستوں کیلئے اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان تو امریکہ سے دوستی کا خمیازہ بھگت رہا ہے لیکن اب بھارت بھی اِسی راہ پر چل نکلا ہے۔اُس کی انتہا پسندقیادت پاکستان دشمنی میں اندھی ہوکر امریکہ بہادر کی گود میں جابیٹھی ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ اُسے اِس کی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ بہرکیف امریکی صدر کے موجودہ اور سابقہ ٹویٹس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ اُفق پر منڈلاتے خطرات کی بو سونگھ کر پاکستانی قوم کی خودداری بیدار ہوگئی اور وہ پاکستان کی خودمختاری کے دفاع کی خاطر متحد ہوگئی ہے۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر جرأت اور دانشمندی سے جواب دیا ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو چند ایٹمی ہتھیاروں کا مالک شمالی کوریا جیسا ملک امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے جس کی افواج کا شمار ایٹمی اسلحہ سے لیس دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ امریکی صدر کے ٹویٹ کے بعد وطن عزیز میں ہر جگہ اِس کے نتائج پر تبصرے جاری ہیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے بھی اِس صورت حال پر عوام الناس کی رہنمائی کی خاطر ایک فکری نشست بعنوان ’’امریکہ کے الزامات اور پاکستان کا رد عمل‘‘ منعقد کی جس کے مہمانِ خاص سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری تھے۔ اُن کی جہاں دیدگی اور خارجہ امور پر اُن کی گرفت ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ اُنہوں نے بڑی حوصلہ افزا گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے بیان سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اُس کے اِن ٹویٹس سے خود امریکہ کو زیادہ نقصان ہورہا ہے اور وہ دنیا میں تنہا ہورہا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اِس بیان کے رد عمل میں پاکستان کی سول و فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں اور اُنہوں نے بڑا اچھا پالیسی رسپانس دیا ہے۔ خورشید محمود قصوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کا اصل مقصد ملکی مفادات کا تحفظ ہے اور مستحکم اقتصادیات اور گڈ 

گورننس ہی موثر خارجہ پالیسی اور مضبوط قومی بیانیے کی بنیاد ثابت ہوتی ہیں۔ نشست میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی‘ دنیا گروپ آف نیوز پیپرز کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی‘ تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن کرنل(ر) سلیم ملک‘ ممتاز صحافی اور دانشور رئوف طاہر‘ معروف کالم نویس اکرم چوہدری اور سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو میجر(ر) شبیر احمد نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے انجام دیئے اور اِس عزم کا اظہار کیا کہ اہم قومی معاملات و مسائل پر قومی شعور اُجاگر کرنے کی خاطر ایسی فکری نشستوں کا اہتمام کیا جاتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...