امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018ء کے پہلے دن اپنے پہلے پیغام میں پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے باز جبکہ امریکہ اور امریکیوںکو بے وقوف قرار دیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو 9/11 کے بعد 33 ارب ڈالرز کی امداد دے کر بے وقوفی کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس رقم سے امریکہ نے 14 ارب ڈالرز پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ادا کئے اس کے عوضپاکستان نے دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ میں امریکہ کیلئے اپنی زمین‘ فضائی راستے‘ ملٹری بیسز کے علاوہ انٹیلی جنس شیئرنگ فراہم کی پاکستان کی اس مدد کے باعث ہی امریکہ القاعدہ اور دیگر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کرنے کے قابل ہوسکا۔ امریکہ کی معمولی معاشی امداد جو 9/11 کے بعد سترہ سالوں میں مختلف پروگرامز اور چینلز کے ذریعے ہمیں دی گئی ہے وہ بمشکل 25 کروڑ ڈالرز سالانہ کے لگ بھگ ہے مگر اس کے عوض ہمیں کیا ملا ہمارے پورے معاشرے کا تار و پود ہی بکھر گیا‘ ہمارے ساٹھ ہزار سے زائد سویلین شہید ہوئے‘ چھ ہزار سے زائد سکیورٹی اداروں کے جوانوں نے وطن عزیز پر اپنی جانیں نچھاور کیں ۔ امریکی مفادات کی جنگ میں عرصہ دراز تک کنفیوژن رہی کہ لڑنے والے طرفین مسلمان ہیں۔ ہمیں آرمی پبلک سکول پشاور اور پریڈلین دھماکے میں اپنے نونہالوں کی کثیرتعداد کی جانوں کے نذرانے اس پرائی مسلط کردہ جنگ میں قربان کرنے پڑے‘ 123 بلین ڈالرز کے معاشی نقصانات برداشت کرنا پڑا‘ سرحدوں پر نوجوان آفیسرز اور سپاہیوں کی شہادتوں کے دیپ جلانے کے باوجود ہماری قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکہ حسب عادت پاکستان کو دبائو میں لا رہا ہے تاکہ افغانستان میں امریکی ناکامی کو امریکی عوام کے سامنے جواز بنایا جاسکے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ہمیں دھمکیاں اس لئے دے رہا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان گوادر پورٹ کے ذریعے چین کے ساتھ سی پیک لنک ختم کردے۔ اکنامک افیئر ڈویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سترہ سالوں میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مجموعی طور پر چار ارب 38 کروڑ 82 لاکھ ڈالرز معاشی امداد کے طور پر دیئے گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس امداد کا چالیس سے پچاس فیصد امریکہ اپنے کنسلٹنٹس کی تنخواہوں‘ ٹھیکے داروں کی ادائیگیوں اور صلاحیت بڑھانے کے پروگرامز کے ذریعے واپس لے چکا ہے اور ابھی بھی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ کی طرف پاکستان کے سات ارب ڈالرز واجب الادا ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا مؤقف درست ہے کہ افغانستان میں آپریشنز کے دوران پاکستان کے ہونے والے خرچے کی مد میں امریکہ نے جو رقومات ادا کی ہیں وہ ان سروسز کے عوض دی گئی تھیں جو پاکستان کی ریاست نے زمین‘ سڑکیں اور ریلوے کے علاوہ فراہم کی تھیں۔ یہ امریکہ نے یہ رقوم ہمیں خدا واسطے نہیں دیں ان سب کا حساب کتاب موجود ہے۔ امریکی صدر اپنی انتظامیہ سے پوچھ لیں کہ پاکستان کو کس مد میں پیسے دیئے گئے ہیں امریکہ نے معاشی امداد این جی اوز اور اپنے کنٹریکٹرز کے ذریعے دی اور فوجی امداد جنرل پرویز مشرف کی طرف سے دی گئی سروسز کے عوض دی گئی پاکستان نے دو دفعہ امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے عوض ابھی تک امریکہ سے کوئی بڑا مالی فائدہ نہیں حاصل کیا ہے جیسے مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد تمام واجب الادا قرضے معاف کرا لئے تھے۔ 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک میں ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون پر حملے نے عالمی صورتحال بدل دی اور یوں 1979ء کے بعد پاکستان دوبارہ امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن گیا۔ مشرف نے نومبر 2001ء اور 2002ء فروری میں امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کو شاندار خراج تحسین پیش کیا اور پاکستان کو اہم سٹریٹجک پارٹنر کا مرتبہ دوبارہ مل گیا۔ 24 جون 2003ء کو مشرف نے امریکہ کا دورہ کیا تو اس پر پاکستان کو پانچ سال کیلئے 3 بلین ڈالرز کی امداد ملی۔ ایف 16‘ کشمیر اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بات ہوئی مارچ 2004ء میں کولن پائول نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا۔
امریکہ نے دہشت گردی کو مٹانے کیلئے ہمارے زمینی اور ہوائی راستے استعمال کرتے ہوئے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ کردیا۔ امریکہ اسامہ بن لادن کو 9/11 حملے کا روح و رواں سمجھتا تھا اور وہ اس کو ہلاک کرنے کیلئے ہر حال میں ملاعمر کی طالبان حکومت کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ جب پرویز مشرف نے امریکی شرائط تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعاون شروع کیا تو امریکہ نے پاکستان کے تعاون سے خوش ہوکر حقائق نامہ جاری کیا جس میں پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی دہشت گردی کچلنے میں بے حد تعریف کی گئی۔ پاکستان فوج نے بادل نخواستہ امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنا لیا کیونکہ پاکستان کے طول و عرض میں بم دھماکے اور خودکش حملوں کے سلسلے نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آپریشن راہ راست‘ راہ نجات‘ ضرب عضب کے ذریعے پاک فوج نے لاتعداد شہادتوں کے بعد دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ سوات‘ جنوبی وزیرستان‘ شمالی وزیرستان کے علاقوں کو دہشت گردوں کے تسلط سے آزاد کرا لیا گیا اور ابھی بھی آپریشن ردالفساد چل رہا ہے۔
صدر ٹرمپ سے پہلے جب بارک اوباما صدر بنے تو ہمارا خیال تھا کہ امریکہ افغانستان کے متعلق اپنی پالیسی بدلے گا اور جلد اپنی افواج افغانستان سے واپس بلا لے گا مگر بش حکومت نے نرمی کے ساتھ پاکستان کو ’’ڈومور‘‘ ’’ڈومور‘‘ جیسے الفاظ کے ذریعے دبائو میں رکھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کا بازو مڑور کر پاکستان کو مجبور کررہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی افغانستان میں ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کیلئے اپنے قومی مفادات کو نظرانداز کرکے اس کی ترتیب دی ہوئی افغان پالیسی پر ہو بہو عمل کرے دراصل وہ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کو پاکستان کی فوج کے سر تھوپ رہے ہیں۔ اگر 500 ارب ڈالرز سے زائد افغانستان کی جنگ میں خرچ کرنے کے بعد امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کرسکی تو پاکستان کیسے جادو کی چھڑی سے یہ کام کرسکتا ہے۔ تاہم پاکستان نے بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ تمام فریق باہمی گفت و شنید سے کسی معاہدے پر پہنچیں تو بہتر ہوگا مگر آج امریکہ جو پاکستان پر اس قدر برہم ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹرمپ جنوبی ایشیا کے معاملات میں ہندوستان کا کلیدی کردار اجاگر کررہا ہے اور چین اور روس کو محدود کرنے کیلئے بھارت کو تیار کررہا ہے دونوں ممالک کے آپس میں گہرے سٹریٹجک مفادات ہیں مگر بدقسمتی سے امریکہ کا پاکستان کی انتظامیہ ‘ پاکستان کی سیاسی قیادت‘ مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پرسے اعتماد اٹھ گیا۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں طالبان کیخلاف بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ پوری دلجمعی سے اس کا ساتھ دے مگر امریکہ کو کون سمجھائے کہ اگر امریکہ افغانستان کے معاملات میں ہندوستان کو مرکزی کردار دینے کی بات کرے گا تو کیسے پاکستان بھارتی بالادستی قبول کرتے ہوئے متنازعہ جنگ میں بھرپور حصہ لے گا۔ ماضی میں پاکستان بلا چوں چرا اس لئے امریکہ کا اتحادی بن گیا کہ کمیونزم کو روکنے اور دوسری مرتبہ افغانستان میں ملا عمر کی حکومت ختم کرنے میں تمام تر انحصار صرف اور صرف پاکستان پر تھا مگر اب پالیسی میں پاکستان کو ثانوی حیثیت دی جارہی ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو آج کل آزمائش کی ایک چھوٹی سی رسی سے باندھ رکھا ہے اور پاکستان کے کردار کے متعلق امریکہ ایسے ہی بات کررہا ہے جیسے کبھی وہ یاسر عرفات کے متعلق کرتا تھا۔ ایک طرف دھمکی دی جاتی ہے اور دوسری طرف مزید خدمات انجام دینے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ ایک طرف امریکہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہے مگر افغانستان اور عراق میں کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود اس نے پاکستان کو کبھی بھی اس قدر اقتصادی اور فوجی امداد نہیں دی ہے جو اس کو معاشی اور فوجی لحاظ سے مضبوط طاقت بنا دے حالانکہ مصر اور ترکی کو ہمیشہ بڑے بڑے اقتصادی پیکجز ملے اور نہ ہی آج تک امریکہ نے کھلے بندوں عوامی سطح پر پاکستان کیخلاف بھارت کو کشیدگی کم کرنے کیلئے کہا ہے۔ ہمیشہ تمام تر بوجھ پاکستان پر ڈالا گیا اور آج تک حالیہ امریکی صدر سمیت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کا وعدہ ایفا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال آج ہمیں امریکی صدر کی تمام تر تلخ گفتگو کے باوجود صبروتحمل سے کام لینا ہوگا۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر وقت امریکہ کی بے وفائی اور ناقابل اعتماد دوستی پر کڑھتے رہیں اور جواب آں غزل کے طور پر جوابی گولے داغتے رہیں ہمارے پالیسی سازوں کو گہرائی اور داخلیت سے یہ جائزہ لینا ہوگا کہ حالات کہاں اور کیوں خراب ہوئے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو درست سمت دیتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ امریکہ کسی بھی ملک کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات طے نہیں کرتا لہٰذا پاکستان کی کسی بھی منطق کو وہ تسلیم نہیں کرے گا۔ ٭