واشنگٹن/ مقبوضہ بیت المقدس(اے این پی+بی بی سی+نیٹ نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی دھمکی کے جواب میں زیادہ سخت جواب دیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ہے ان کے پاس شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار سے زیادہ بڑا بٹن ہے۔ انہوں نے لکھا شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے حال ہی میں کہا انکی میز پر ہمہ وقت جوہری بٹن رہتا ہے۔ انکی مفلوک الحال اور بھوکی حکومت میں سے انہیں کوئی بتائے کہ ایک جوہری بٹن میرے پاس بھی ہے، لیکن میرا والا ان سے بہت بڑا اور طاقتور ہے اور میرا بٹن کام بھی کرتا ہے۔اس سے قبل شمالی کوریا کے رہنما نے نئے سال کے موقعے پر اپنے ٹی وی خطاب میں کہا تھا امریکہ کبھی بھی جنگ کا آغاز نہیں کر سکتا ہے کیونکہ جوہری ہتھیار چلانے کا بٹن ہر وقت انکی میز پر موجود ہوتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کی بھی امداد بند کرنے کی دھمکی دیدی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہم فلسطینیوں کو سالانہ ملین ڈالر امداد دیتے ہیں۔ 300ملین ڈالر امداد کے بدلے ہمیں کوئی احترام نہیں ملتا۔ فلسطینی اسرائیل سے بات چیت سے بھی انکاری ہیں لہٰذا جب تک وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آتے ہمارے لئے یہی بہتر ہے فلسطین کی امداد بند کر دیں۔ خیال رہے 6دسمبر کو صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے امریکہ کے ساتھ روابط ختم ہو گئے تھے۔ امریکی صدر کی دھمکی پر ردعمل میںفلسطینی حکام نے کہا ہے ہم امداد بند کرنے کی ٹرمپ کی دھمکی سے بلیک میل نہیں ہونگے۔ فلسطینی سینئر عہدیدار حنان اشروی نے اپنے بیان میں مزید کہاامریکی صدر ٹرمپ ہماری امن‘ آزادی اور انصاف کی تلاش کو سبوتاژکر رہے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے غیرذمہ دارانہ اقدامات کا الزام فلسطینیوں پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے مقبوضہ بیت المقدس برائے فروخت نہیں۔ انہوں نے کہا مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا ابدی دارالخلافہ ہے اور یہ سونا یا بلین ڈالر کے عوض برائے فروخت نہیں۔ ٹوئٹر پر شمالی کوریا کیلئے صدر ٹرمپ کے انتہائی ذاتی پیغام سے قبل اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان مجوزہ مذاکرات کو بینڈ ایڈ (ایک قسم کی مرہم پٹی) کہا تھا اور یہ کہا تھا واشنگٹن کبھی بھی جوہری اسلحہ سے لیس پیانگ یانگ کو قبول نہیں کر سکتا۔ بہرحال جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے رہنما کے پیغام کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے 9 جنوری کی تاریخ کو جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کم کرنے کیلئے نادر موقع قرار دیا تھا لیکن امریکہ نے ان مذاکرات کی سنجیدگی پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ بہرحال صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے بیانوں پر لوگوں نے سوشل میڈیا پر تشویش ظاہر کی ہے کہ کس طرح جوہری ہتھیار کے حامل دو رہنما ایسی ہلکی باتیں کر سکتے ہیں۔خیال رہے اس سے قبل کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ کو احمق یا پیر فرتوت کہا تھا جبکہ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کو لٹل راکٹ مین کہا تھا۔ مرفی پولز نامی ایک صارف نے صدر ٹرمپ کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ایک جوہری جنگ مذاق نہیں۔ آپ یہ شیخی نہیں بگھاڑ سکتے میرے میز پر پر بھی بٹن ہے جس سے دنیا میں جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے لیکن مسٹر ٹرمپ کے حامیوں نے ان کا دفاع کیا ہے کہ انکا بیان حقیقت پر مبنی ہے اور اس سے امریکہ کی طاقت اور ارادے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
ٹرمپ/دھمکی