لاہور (ندیم بسرا) نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی شدید سردی میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی گرما گرمی بھی بڑھ گئی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماﺅں کی جانب سے سندھ حکومت گرانے اور گورنر راج کے بیانات کے بعد چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی ایک ہفتے میں وفاقی اور پنجاب حکومت گرانے کا چیلنج کردیا۔ وزیراعظم عمران خان نے وقت کی نزاکت اور منفی تاثر سے بچنے کیلئے سیاسی حکمت عملی کے تحت سے فواد چودھری کا دورہ سندھ ملتوی کروا دیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی حکومت کے جنوری کے وسط میں پانچ مہینے مکمل ہوجائیں گے۔ اتنا کم عرصہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اتنے عرصے میں حکومت کی معاشی، داخلی، خارجی پالیسیوںکی سمت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ آزاد امیدواروں کے ساتھ عددی لحاظ سے پنجاب اور خیبرپی کے میں بھی بڑی سیاسی جماعت ہے، پی ٹی آئی کی بلوچستان میں اتحادی حکومت اور سندھ میں اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کے ساتھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، آزاد امیدوار، ایم کیو ایم اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ گورنرسندھ عمران اسماعیل بھی ایک ملاقات میں وزیراعظم کو اشارہ دے چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ایک بڑا دھڑا کرپشن کیخلاف اور ایوان میں تبدیلی چاہتا ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان غیرآئینی تبدیلی سے منفی تاثر نہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔کابینہ کے اجلاس میں بھی موجودہ حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) وزارت داخلہ کی درخواست پر پی پی قیادت آصف زرداری، بلاول بھٹو، مراد علی شاہ سمیت دیگر 172رہنماﺅں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے نام نہ نکالنے کا سخت عندیہ دیا ہے۔ صرف حالات کے تقاضوں کے تحت معاملہ نظر ثانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت کیخلاف احتسابی عمل میں سزائیں ، نوازشریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس میں سزا اور جیل میں منتقلی ،شہبازشریف کی گرفتاری کے بعد ن لیگ میں تاحال پارٹی قیادت کا فقدان ہے، مریم نواز مفاہمت ہویا کوئی سیاسی حکمت عملی ابھی تک سیاسی میدان میں نہیں نکل رہیں۔ جس سے فارورڈ بلاک کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ البتہ نوازشریف نے احتساب عدالت کے فیصلے میں ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر ایڈوائرزی کمیٹی قائم کردی ہے، جوکہ ن لیگ کے سیاسی اور پارٹی امورکو چلا رہی ہے۔ سیاسی جماعت کے ذرائع بتاتے ہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کی مرکزی قیادت اور اپوزیشن اتحادی جماعتیں کسی نازک موقعے کی تلاش میں ہیں، دونوں سیاسی جماعتوں کو چونکہ کرپشن الزامات کے باعث عدالتوں میں کیسزکا سامنا ہے۔ دونوں جماعتیں حکومت کو سیاسی میدان میں چت کرنے اور کسی بھی طرح اقتدارسے آﺅٹ کرنے جیسے حالات کا بھی انتظار کررہی ہیں۔اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ حکومت اپنی نااہلی اور نہ تجربہ کاری کے باعث خود ہی اپنی ناکامیوں کے وزن تلے دب جائے۔تحریک انصاف کے چیف وزیراعظم عمران خان سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومت 18ویں ترمیم کے خاتمے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے وسائل سے تین فیصد فاٹا کوبھی دینے اور پانی کی تقسیم کے نظام سمیت دیامیر بھاشاڈیم ،مہمند ڈیم کے لیے بھی وسائل پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں میں قانون سازی کیلئے حکومت کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اس تمام ترصورتحال میں وزیراعظم عمران خان اور اس کی ٹیم کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ موجودہ حالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف حکمران جماعت نے سیاسی محاذ کو گرم کررکھا ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی ٹیم وزیراعظم عمران خان کی زیرنگرانی معاشی استحکام اور مہنگائی کم کرکے عوام کو ریلیف دینے ،50لاکھ گھروں کی تعمیرسمیت نوجوانوں کونوکریاں دینے کیلئے بھی کوشاں ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی امداد کے بعد اب چین کی جانب سے پاکستان کیلئے 2ارب ڈالر قرض کا اعلان کسی نعمت سے کم نہیں۔اگرچہ یہ کمرشل قرض ہے لیکن صرف8فیصد شرح سود پر یہ قرض پاکستانی زرمبادلہ کو نہ صرف سہارا دے گا بلکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کو تقویت دینے کا باعث بھی بنے گا ،ڈالر نیچے آنے سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں کمی بھی ہوگی اورعوام کو بھی کچھ ریلیف مل سکے گا۔اسی طرح پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی رابطے جاری ہیں۔اب وزیراعظم عمران خان کا ترکی کا 2روزہ دورہ بھی نئی خارجہ اور معاشی پالیسی کے خدوخال کو ظاہر کرے گا جس میں سرمایہ کاری اور تجارتی منصوبوں میں تعاون بڑھانے کیلئے بات چیت کی جائے گی۔وزیراعظم عمران خان کے بلندعزم کے باعث ممکن ہے کہ نئے سال میں نئے جذبے کے ساتھ آئندہ مہینوں میں واضح تبدیلی بھی دکھائیں۔
آغاز