لاہور (رفیعہ ناہیداکرام) پنجاب میں 2018ءکے دوران 5سے 16 سال تک کے بچوںکی طرف سے گھروں کو چھوڑنے کا رجحان رہا۔ صوبہ بھر میں یکم جنوری 2018 سے 31 دسمبر 2018 تک گھروںکو چھوڑنے والے 5157 بچے چائلڈ پروٹیکشن بیورو پہنچ گئے۔ ان بچوں کو صوبہ بھر میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے 8 ضلعی دفاتر رحیم یار خان، بہاولپور، لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی اور سیالکوٹ کی ریسکیو ٹیموں نے حفاظتی تحویل میں لیا۔ بیورو پہنچنے والے بچوںمیں 4521 لڑکے اور 636 بچیاں شامل ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے لاہور سے 1055 ، گوجرانوالہ سے 633، فیصل آباد سے 705، راولپنڈی سے 832، سیالکوٹ 733، ملتان 482، بہاولپور 387، رحیم یار خان سے 330 بچوں کو حفاظتی تحویل سے لیاجبکہ ساراسال پنجاب کے مختلف اضلاع سے بھاگ کر صوبائی دارالحکومت کا رخ کرنے والے بچے شہرکے مختلف پارکوں، داتادربار، مینارپاکستان، لاری اڈا، فروٹ منڈی، ریلوے سٹیشن، اکبری منڈی، شاہ نور سٹوڈیو ودیگر علاقوں میں پہنچتے رہے۔ بچوں کی اکثریت گھر سکول یا مدرسے میںپٹائی وحشیانہ سزاو¿ں، سوشل میڈیا کے منفی اثرات، والدین کے مابین جھگڑوں کے دوران چیخ وپکار گالی گلوچ اور گھر میں پیش آنے پر تشدد واقعات ، بری کمپنی، چائلڈ لیبر کی مجبوری ، چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشوں کے پورے نہ ہونے اور کام لینے والوں کی جھڑکیوں دھمکیوں وغیرہ سے تنگ آکر انتہائی اقدام پر مجبور ہوتی رہی۔ معصوم بچے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے بھی چڑھتے رہے ۔ 2018 میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے 4987 بچوں کے گھروں کو تلاش کرکے انہیں انکے خاندان سے ملادیا۔ ان میں 4407 بچے اور 580 بچیاں شامل تھیںجبکہ تاحال 143 گمشدہ بچے بیورو دفاتر میں رہائش پذیر ہیں ان میں 98 بچے اور 45 بچیاں شامل ہیں انکے والدین اور گھربار کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔ مختلف شہروں سے گھر چھوڑ کر چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور کی حفاظتی تحویل میں پہنچنے والے بچوں عامر ، سدرہ اور واصف نے نوائے وقت کو بتایا کہ ہم مار پیٹ ،گھر میں برپا ہونے والی خاندانی لڑائیوں اور ناآسودہ ماحول سے تنگ آکر گھر چھوڑ نے پر مجبور ہوئے مگر اب گھر والدین بہن بھائی اور سبھی عزیزو اقارب یاد آتے ہیں مگر گھر کا جو پتہ ہمیں معلوم ہے ہمارے والدین اسے چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں سو اب ہم جائیں تو کہاں جائیںاب یہ بیورو ہی ہمارا گھر ہے۔
بچے