اسلام آباد میں بائیس سالہ نوجوان کا قتل پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے ماتھے پر وہ بدنما داغ ہے جس شاید ہی کبھی مٹ سکے۔ وہ شہر جو دنیا بھر میں امن و امان کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ہی ایک بائیس سالہ نوجوان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہ حکومت کی ناکامی تو نہیں اور کیا ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا شیخ رشید کے وزارت داخلہ میں آنے کے بعد قوم کو بری خبروں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ شیخ صاحب جو تباہی پاکستان ریلویز میں کر کے آئے ہیں وہیں سے کام وزارت داخلہ میں شروع کریں گے۔ امن و امان کے حوالے سے ایسے واقعات نہایت تکلیف دہ اور خوفناک ہیں۔ قانون کے تکھوالے قانون ہاتھ میں لینے لگیں، عوام کی جان و مال کے محافظ گولیاں برسانے لگیں تو معاشرے میں امن و امان ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو سر عام پھانسی دینا درست ہے تو پھر نہتے نوجوانوں کو سڑکوں پر گولیاں مارنے والے سرکاری اداروں ہے اہلکاروں کو بھی سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ملک کی سڑکوں پر شہریوں کے خون کا رنگ بھرتے رہیں۔ پولیس کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ کو یہ خبر ہونی چاہیے کہ جب اسلام آباد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو بیرونی دنیا میں اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔ اس واقعے کی مکمل اور غیر جانبدار انکوائری کے بعد ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ ایک طرف اسلام آباد میں دل چیرنے والا واقعہ ہوا ہے تو مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے گیارہ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہاں بی ایل اے ملوث ہے لیکن اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پاکستان میں امن و امان خراب کرنے کے حوالے سے بلوچستان ہمارے دشمن ملک بھارت کے ہدف پر ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اندرونی سہولت کاروں کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہے اور بلوچستان میں حالات خراب ہونے کی وجہ بھارتی مداخلت ہے۔ ہمیں ان حالات میں مزید محتاط رہنے اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جن بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ جب کراچی سے مسلسل مختلف سرکاری اداروں سے بھارت کے سہولت کار گرفتار ہو رہے ہیں تو پھر کسی بھی واقعے کو اس پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شیخ رشید جس وقت وزیر داخلہ بنے ہیں اس وقت میں ملک کو سنجیدہ، سمجھدار، قابل، اہل اور غیر جانبدار وزیر داخلہ کی ضرورت تھی لیکن شاید شیخ رشید سے زیادہ موزوں شخص پوری حکومت میں نہیں تھا جو انتہائی اہم وزارت ان کے حوالے کر دی گئی ہے۔
مچھ میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے پولیس حکام کا بتاتے ہیں کہ مسلح افراد مچھ کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے کان کنوں کو اغوا کر کے قریبی پہاڑیوں میں لے گئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں دس سے زائد زخمی کان کنوں کی حالت تشویشناک ہے زخمیوں کو مچھ اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کچھی مراد کاسی نے فائرنگ کے واقعے میں گیارہ کان کنوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ لاشوں اور زخمیوں کو کوئٹہ منتقل بھی کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کی اس کارروائی کے بعد علاقے کو گھیرے میں لیکر سرچنگ اور سویپنگ آپریشن بھی کیا گیا ہے۔ جب بلوچستان دشمن کے نشانے پر ہو اور دارالحکومت میں نوجوانوں کو گولیوں سے بھونا جا رہا ہو ان حالات میں وزیر داخلہ کی سیاسی بازی کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ لوگوں کو اس سے غرض نہیں کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائد کے حوالے سے سے کیا بیانات دیتے ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جائے اور لولیس کے محکمے میں موجود کالی بھیڑوں کو انجام تک پہنچایا جائے۔ شیخ رشید کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بحیثیت وزیر داخلہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ پی ڈی ایم کے پیچھے پڑے پڑے وہ ملک کے امن و امان کو تباہ نہ کر دیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں ریلیوں کو سیکیورٹی بھی دیں۔ ان کے جلسوں میں شریک پاکستانیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور ملک بھر میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جلسی یا ریلی یا اسے کچھ بھی کہا جائے بہاولپور میں مکمل طو پر ناکام ہوئی ہے۔ لاہور میں عوام کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد بہاولپور میں بھی میں بھی مقامی لوگوں نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ ایسی جگہ جہاں پر مقامی میں ایم این ایز یا ایم پی ایز اپنے جلسے جلوس کرتے ہوں وہاں پی ڈی ایم کی پوری قیادت مکمل تیاری اور بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ چند ہزار افراد کے ساتھ موجود ہو۔ اس سے زیادہ عوام کی عدم دلچسپی کسے کہا جائے گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہر گذرتے دن کے ساتھ غیر موثر ہوتی جا رہی ہے۔ شہر شہر گلی گلی جہاں جہاں بھی یہ جا رہے ہیں مقامی افراد انہیں مسترد کر رہے ہیں مقامی افراد ی عدم دلچسپی ہی اس تحریک کی کی ناکامی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ پی ڈی ایم کی ریلیوں میں چند اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی گاڑیاں اور بسیں ضرور ہوتی ہیں لیکن مقامی لوگوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوامی عدم دلچسپی کے باوجود مریم نواز شریف کی طرف سے گمراہ کن بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ چونکہ ان کی زندگی ہی جھوٹ سے چل رہی ہے اور یہی ان کے جینے کا بہانہ ہے اس لیے وہ ہر وقت سیاسی طور پر زندہ رہنے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے غلط بیانی کرتی رہتی ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں وراثتی قیادت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ بالخصوص مریم نواز شریف جن کا پارلیمنٹ میں نہ کوئی کردار ہے نہ وہ جماعت کی سربراہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی جماعت کی ساری سینئر قیادت ہاتھ باندھے ان کے پیچھے کھڑی ہے اور وہ صرف اپنے والد میاں نواز شریف کی وجہ سے ساری جماعت کو ہائی جیک کیے بیٹھی ہیں۔ برسوں جماعت کے لیے دھکے کھانے والوں، مختلف ادوار میں وزارتیں چلانے والوں میں سے کوئی قیادت کے نہیں ہے اہل نہیں ہے۔ سب کے سب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور ایک غیر منتخب خاتون سیاسی جماعت کے فیصلے کر رہی ہے۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے وہاں بھی وراثتی قیادت سامنے آ رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے ذمہ داروں نے کبھی متبادل قیادت تیار ہی نہیں کی۔ گویا سیاسی جماعتیں جائیداد یا کمپنی کی ملکیت کی طرح اگلی نسل میں منتقل ہوئے جا رہی ہیں۔ حالانکہ مریم نواز شریف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے ان کے والد کا تو بالکل کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے البتہ میاں شہباز شریف اقر چودھری نثار علی خان کا سیاسی مستقبل روشن ہے۔ حکومت سازی یا اقتدار میں وہ ہوتے ہیں یا نہیں لیکن سیاسی طور پر وہ اہم کردار نبھاتے نظر آئیں گے۔ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کے سیاسی تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ملک میں ان دنوں قومی ڈائیلاگ کی ہوا چل رہی ہے۔ قارئین لکھ لیں کہ مستقبل نیشنل ڈائیلاگ کا ہے۔ پارلیمانی نظام کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے اور ملک کو بہتر نظام حکومت کے لیے اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اٹھارہویں ترمیم نے صحت اور تعلیم کے شعبقں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے جبکہ ریونیو کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ صوبوں کی حالت ابتر ہو چکی ہے اور سیاست دان عوام کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سرے سے اس نظام کو نہیں مانتی جبکہ میاں نواز شریف کی جماعت اس نظام کو بھی صرف اس انداز سے چلانے کی خواہش مند ہے جس سے صرف اسے سیاسی فائدہ ہو سکے۔ نیشنل ڈائیلاگ ہی اس ملک کا مستقبل ہے یہ کیسا ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، کب اس پر عملی کام شروع ہوتا ہے اس میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ حکومت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرے اور اس ڈائیلاگ کی قیادت کرے اگر حکومت یہ قدم نہیں اٹھاتی تو پھر اس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان بھی پاکستان تحریکِ انصاف کو ہو گا۔ اگر سیاسی حالات یہی رہے تو پھر نہ کوئی نون لیگ ہو گی، نہ کوئی پی پی پی ہو گی اور نہ ہی کوئی پی ٹی آئی ہو گی پھر وہی ہو گا جو اس ملک کے لیے بہتر ہو گا اور یہ ڈائیلاگ اپنا راستہ خود بنا لے گا۔ ملک کو ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں احتساب غیر جانبدار ہو، عدلیہ آزاد ہو، انصاف تیز رفتار ہو، اہم قومی اداروں میں سربراہوں کی تعیناتی میرٹ اور شفاف انداز میں کی جا سکے۔ ملکی دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ اگر موجودہ اور نمایاں سیاست دان مل جل کر یہ کام نہیں کریں گے تو پھر کوئی اور کرے گا۔ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک کو مسائل سے نکالنا ہے۔ ہمارے لیے میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم سے زیادہ ملک کا مستقبل اہم ہے۔ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ہی سب کو فیصلے کرنے ہیں۔ رکاوٹیں ختم کرنی ہیں، راستے پیدا کرنے ہیں لیکن کیا ان حالات میں جب مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کو نہ مانے، عمران خان مولانا فضل الرحمٰن کو تسلیم نہ کرے، میاں نواز شریف عمران کو دیکھنا پسند نہ کرے، عمران خان نواز شریف سے بات کرنا پسند نہ کرے، بلاول بھٹو زرداری عمران خان سے بات نہ کرے اور عمران خان بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی اہمیت کو نہ مانے قومی ڈائیلاگ کیسے ہو گا۔ ذرا سوچیے پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔
قومی ڈائیلاگ، پی ڈی ایم کی ناکامی اور وزارت داخلہ کی کارکردگی پر اٹھتے سوالات!!!
Jan 04, 2021