اس وقت قومی سیاست میں گرما گرمی بڑھی ہوئی ہے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو دھمکیاںدے رہے ہیں۔دلچسپپ بات یہ ہے کہ جیسے حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو رام کر لیا ہو مگر مولانا فضل الرحمان قابو سے باہر ہو ں اس لئے جو بھی وزیر میڈیا پر آتا ہے پہلا نام وہ مولانا فضل الرحمان کا لیتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت ختم ہو بھی جائے تو پھر بھی مولانا فضل الرحمان وزیراعظم نہیں بن سکتے ہیں ۔ اس لئے ان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کو موجودہ حکومت کے خاتمہ سے سب سے فائدہ زیادہ ہو گا ۔ایک تو ان کے گرد کھینچا گیا احتساب کا شکنجہ نرم ہوگا اور دوسرا پھر سے وہ اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھنے کے قابل ہونگے ۔دونوں جماعتوں کا الزام ہے کہ ان کے ووٹ چوری کئے گئے اور وزیراعظم عمران خان کی جماعت کو زبردستی ہمارے ووٹ چرا کر اقتدار دلایا گیا ہے ۔جو ووٹ ان جماعتوں کے بقول چرائے گئے ہیں ان کی نشاندہی کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے ۔ دونوں جماعتوں نے الیکشن کمیشن یا پھر عدلیہ سے رجوع نہیں کیا ہے جس طرح ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے کیا تھا ۔ ان کی اپیلوں سے دھاندلی کچھ حد تک ثابت بھی ہوئی تھی اور اس میں براہ راست مسلم لیگ ن کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ۔ اس کے بعد نئے انتخابات کے نتائج پر ہنگامہ ہوا اور پھر سے وہی احتجاج اور شوروشرابا شروع ہوگیا ۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی احتساب بیورو (نیب )متحرک ہوگیا اور اس نے تمام پرانے کیسز کھول دیئے ۔ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مل کر باہمی رضا مند سے تعینات کیا تھا ۔ نیب کے چیئرمین نے جب تک ان کا اقتدار رہا تو وہ آرام سے بیٹھے رہے بس فائلیں ادھر ادھرہوتی رہیں ۔ جب نئی حکومت آئی اور وزیراعظم عمران خان کو اقتدار ملا تو نیب ایک متحرک اور فعال ادارہ بن گیا اور اب تک اس نے سینکڑوں اپوزیشن کے لوگوں کو دھرا ہوا ہے اور ان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں ۔ سابقہ وزیرخارجہ و وزیر دفاع خواجہ آصف کافی عرصے سے نیب سے شکنجے میں نہیں آ رہے تھے ان کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا ہے ۔ تاحال تمام کیسز میں انکوائریاں چل رہی ہیں اور عدالتوں میں رونقیں لگی ہوئی ہیں ۔ اب نیب نے مولانا فضل الرحمان کو بھی طلب کر لیا ہے ۔ مولانا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی پیش نہیں ہونگے کیونکہ ان کے ہاتھ صاف ہیں۔بارہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی مولانا کے تحفظ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ وہ اب نیب اور الیکشن کمیشن کی بدمعاشیوں کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور اس حوالے سے احتجاج کا پروگرام بھی فائنل کر لیا گیا ہے اور جنوری کا پورا مہینہ احتجاج دراحتجاج ہوگا ۔ نیب میں پیش ہونے کے بجائے نیب کے خلاف مولانا فضل الرحمان کی فرمائش پر نیب کے دفاتر کے باہر مظاہرے کئے جائیں گے ۔ الیکشن کمیشن کا کردار بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ باقی تو سارے فیصلے جلد جلد کر رہا ہے لیکن حکمراں جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو دبا کر بیٹھا ہے ۔ اب پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کی شان کے خلاف بھی مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے ۔ تنگ آمد بجنگ آمد کی مثال اب اس موقع پر درست ثابت ہورہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے نیب اور ایف آئی اے کا استعمال غلط روش ہے ۔ یعنی اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے مگر اس کارروائی میں انتقام کی بو کا آنا یہ قرین انصاف نہیں ہو سکتا ہے ۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف کیسز اگر موجودہ حکومت نے نہیں بنائے ہیں تو پھر اب تک ادارے کیوں خاموش تھے ان مقدمات کا فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا یہ اس نظام کی ناکامی ہے ۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت پر کم اور مقتدر حلقوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جارہی ہے اور اس کے ردعمل میں نیب اور ایف آئی اے کا متحرک ہونا بھی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔ وزیر داخلہ کی جانب سے دھمکیاں دینا اور یہ کہنا کہ اگر کسی نے کوئی پاک فوج کے بارے میں کوئی تنقید کی گئی تو 72گھٹنوں میں پرچہ دے دیا جائیگا ۔ اس طرز عمل کو بدلیں سیاستدان کا کام سیاست کرنا ہے اور سیاست بھی ایسی کہ جس سے عزتوں کا تحفظ برداشت کا پہلو اجاگر ہو۔ اپوزیشن اور حکومت والے اگر ایک دوسرے کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں گے تو پھر عوام کہاں جائے گی نقصان تو ہمیشہ عوام کا ہوا ہے ۔ اقتدار تک پہنچنے اور اقتدار سے نکالنے کیلئے صرف دھمکیاںنہیں بلکہ کردار کی بلندی بھی دکھانی چاہئے ۔
سیاسی الٹی میٹم
Jan 04, 2021