تجزیہ: محمد اکرم چودھری
جب تک منتخب نمائندے ٹیکس نہیں دیں گے ملک میں ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکتا، ملکی خدمت کے دعویدار ٹیکس کے اہل نہیں ہیں، کہیں کسی کے ذمے کوئی ٹیکس نہیں ہے، کہیں چند ہزار اور کہیں چند لاکھ ٹیکس جمع کروایا جا رہا ہے۔ ایسے منتخب نمائندے بھی ہیں جو کئی لاکھ کے کپڑے، جوتے پہنتے اور پرفیوم استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے ذمے ٹیکس نہیں ہے، ذاتی جہاز ہیں لیکن ٹیکس جمع کروانے کے اہل نہیں یا پھر چند ہزار ہی کافی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی اور مالدار سیاست دانوں کے اپنے نام کچھ نہیں ہے۔ وہ سیاست کرتے ہوئے قانونی طور پر اپنے کاروبار اور بڑے بڑے مالی معاملات سے الگ ہو جاتے ہیں، کاروبار خاندان کرتا ہے اور فائدے یہ سب اٹھاتے ہیں۔ کاغذات کی حد تک یہ بات مانی جا سکتی ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ سیاست اور حکومت میں رہتے ہوئے سب کے کاروباروں کو وسعت ملتی ہے، تاریخی منافع کمایا جاتا ہے، سیاست، حکومت اور عہدوں کا استعمال کر کے ہر جائز ناجائز کام کروایا جاتا ہے لیکن اپنے نام کچھ نہ ہونے کے باعث ٹیکس جمع کرواتے ہوئے رقم لکھتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے یہ رجحان نامناسب ہے۔ ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق سابق وزیراعظم و سینیٹر یوسف رضا گیلانی اور سینیٹر پلوشہ خان کی آمدن صفر ہے۔کیا آمدن کے بغیر سینیٹر بنا جا سکتا ہے۔ زیرو ٹیکس دہندگان میں سینیٹر ہدایت اللہ خان، سینیٹر فیصل سلیم رحمان، سینیٹر نسیمہ احسان، سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی، سینیٹر قراۃ العین مری، سینیٹر رانا مقبول احمد اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی زیرو آمدن والے کئی اراکین ہیں۔ کیا ان اراکین اسمبلی کا طرز زندگی آمدن سے مطابقت رکھتا ہے۔ اگر نہیں رکھتا تو پھر یہ زندگی کیسے گذارتے ہیں۔ سب سے پہلے اراکین کو ایمانداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے ترجیحات اور قوم کی سمت کا تعین کرنا ہے، نئے رجحانات کو فروغ دینا ہے۔ جب تک حکمران طبقہ ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گا اس وقت تک ٹیکس اہداف کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔