ذوالفقار علی بھٹو کے درخشاں کارنا مے( 1)

ایک سحر انگیز شخصیت کو 4اپریل 1979ء کو پھانسی پر لٹکا کر قوم سے دور کردیا گیا اس کا شمار نایاب ہستیوں میں ہوتا تھا ۔ یہ شخصیت 5جنوری1928ء کو ایشیاء میں نمودا ر ہوئی۔سردار مرتضی خان بھٹو کے بیٹے میر شاہنواز بھٹو کے ہاں لاڑکانہ والی رہائش ٗ المرتضی ٗ تیسرے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے 92 سال قبل جنم لیا بھٹو کے والد اپنے وقت کے منجھے ہوئے بااثر سیاست دان تھے جن کا متحدہ ہندوستانکی سیاست پر گہرا اثر تھا مسلمانوں کی تحریک آزادی میں شاہنواز بھٹو کا کردار مثالی اور بے داغ رہا تحریک پاکستان کے وقت بھٹو خاندان نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں یہی وجہ ہے کہ سندھ میں بھٹو خاندان کو منفراد و ممتاز مقام حاصل ہے بھٹو صاحب کے والد شاہنواز بھٹو اور چچا واحد بخش بھٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے ۔ تحریک پاکستان کے وقت آپ کے والد شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم اور بعد میں ممبئی کابینہ کے اہم وزیر بنے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے والد نے اپنے بیٹے کی پرورش اور تربیت دینی اور دنیاوی تعلیم کی ابتداء کیلئے المرتضی میں وقت کے قتل ترین اتالیق مقرر کیئے چھ سال کی عمر میں کراچی بشپ ہائی سکول میں داخل کروایا ٗ 1937ء میں آپ کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا  1949ء میں برکھے یونیورسٹی آف سٹی سے سیاسیات میں آئرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شہید بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی کے سنیکرٹسٹ چراج کالج میں فلسفہ اور قانون کی ڈگریاں ایم اے آنرز کی شکل میں حاصل کی ۔وطن واپس آنے کے بعد کراچی میں جزوی اور قانون کے پروفیسر کا پیشہ اختیار کیا شہید بھٹو بچپن سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی نشو ونما کیلئے ٹینس ٗ بیڈمنٹس ٗ سکوائش ٗ کرکٹ ٗ تیراکی میں دلچسپی لیتے رہے تعلیم و کھیل کے علاوہ تاریخ ٗ فلسفہ ٗ سیاست اور شخصیات پر لکھی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے اس مطالعہ نے شہید بھٹو کو انسانیت دوست بننے میں کافی مدد کی ۔  خاندانی رسم و رواج کے مطابق ان کی شادی سردار احمد خان بھٹو کی بیٹی شیریں امیربیگم  سے نکاح پڑھوا دیا جبکہ دوسری شادی اپنی پسند پر 1951ء میں ایرای وزیر لطیف مرزا کی بیٹی نصرت بھٹو سے والدین کی اجازت سے کی ۔ پہلی بیوی شیریں امیر بیگم سے کوئی اولاد نہ ہوئی جبکہ دوسری بیوی نصرت بھٹو کے بطن سے چار بچے ٗ بینظیر ٗ مرتضی ٗ صنم اور شاہنواز پیدا ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو دوسری بیوی نصرت بھٹو کے ہمراہ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے یورپ چلے گئے دوران تعلیم ان کی عملی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر برطانیہ کی سائوتھین یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں بین الاقوامی قانون پڑھانے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں بین الاقوامی قانون پڑھانے کیلئے یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر کردیا ٗ بلا کی ذہانت مالک ذوالفقار علی بھٹو جب سیاست میں آئے تو رفتہ رفتہ ایسے چھا گئے کہ وزیراعظم بن گئے اور عوام کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا   فخر ایشیاء قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عہد سیاست صرف بارہ سال پر محیط تھا جس میں 6سال ان کے عہد حکومت کے بھی شامل ہیں ان بارہ برس کی سیاست میں جناب بھٹو شہید کو وہ غیر معمولی عزت و شہرت نصیب ہوئی جو بڑے بڑے جفادری سیاست دانوںکو برسوں کی کوچہ گردی سیاست کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ بلاشبہ کروڑوں پاکستانیوں کو سیاست میں صرف جناب بھٹو کی شخصیت ہی نظر آتی ہے جو اپنی عظیم شہادت کے 33برس بعد بھی کروڑوں پاکستانیوںکے دلوں میں زندہ ہے اور آج بھی مملکت خداداد کی زمام کار ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے ۔ 1967ء میں تاسیس پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کی مشکلات کا آغاز ہوگیا تھا ۔ایوبی آمریت نے اپنی سرتوڑ کوشش کی پارٹی نہ بن سکے لیکن اس کی ایک نہ چلی ۔ سیاسی جماعت بنانے کے بعد ملک عزیز کے طول و عرض میں بھٹو شہید کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اس سے ایوبی آمریت تھرتھراگئی ٗ پی پی کے انقلابی منشور کو مقتدر قوتوں نے ہمیشہ اپنے خلاف سمجھا ملک عزیز میں پی پی کو کبھی بھی کھلم کھلا کردار ادا کرنے کی اجازت نہ دی گئی ٗ شہید بھٹو نے اپنی جان اور اپنی اولاد اس ملک پر نچھاور کر دی لیکن پھر بھی مقتدر قوتیں اور سیاسی جماعت پی پی کے خلاف ہی رہیں۔
16دسمبر1971ء کی خون آشام شکست کے بعد انہوں نے ایک تھکی ہاری اور شکست خوردہ قوم کی رہنمائی کی انہوں نے بچے کھچے پاکستان کو صرف 6سال میں مستحکم اور مضبوط اور تیسری دنیا کا ایک انقلابی ملک بنا دیا ۔ انہوں نے نہایت پامردی ٗ ہمت اور بلند حوصلگی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔20ستمبر 1971ء کو وہ اسی کرسی پر رونق افروز ہوئے ۔ جس کو بانی پاکستان نے شرف عظمت بخشا تھا ۔ یہ کرسی پاکستان کی عظمت کی کرسی کہلاتی ہے اور جناب بھٹو عوامی تائید کی بناء پر ہی اس کرسی پر بیٹھنے کے حقدار ٹھہرے ۔ وزیراعظم بھٹو کا عہد حکومت 20دسمبر 1971ء سے 4جولائی 1977ء تک محیط تھا انہوں نے ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف چھ سال کے قلیل عرصے میں اسے بام عروج تک پہنچا دیا ۔ ملکی ترقی و کمال کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل کو پہنچے ۔ مملکت خداداد کے تمام کلیدی ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے ۔ ان منصوبوں میں سر فہرست پاکستان کا جوہری پروگرام ٗ پاکستان سٹیل ملز ٗ معیشت کی بحالی ٗ تعلیمی اداروں کا وسیع جال ٗ میڈیکل کالجز ٗ زرعی اصلاحات ٗ انگریزی خطابات کا خاتمہ ٗ محنت کشوں کا تحفظ ٗ عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمدشامل ہیں ( جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن