پی ٹی آئی حکومت کیلئے گزشتہ سال کی آخری ہزیمت خیبر پختونخوا کے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں اسکی ناکامی تھی۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اگرچہ اس ناکامی کو پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں اور پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم سے تعبیر کیا گیا تاہم اس ناکامی کی بنیادی وجہ انتہاء درجے کو پہنچی مہنگائی کے باعث عام آدمی کے روٹی روزگار کے مسائل بڑھنے کی تھی جس کا حکمران پارٹی کے اندر اظہار بھی کیا جاتا رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی قلعے خیبر پی کے میں ہونیوالی اس اتھل پتھل کا بے شک پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں کے حوالے سے ہی فوری نوٹس لیا اور ہر سطح کی پارٹی تنظیمیں تحلیل کرکے اگلے روز نئے عہدیداروں کا بھی اعلان کردیا تاہم میرے خیال میں پی ٹی آئی کی تنظیمیں تحلیل کرنے اور وفاقی اور صوبائی سطح کے پارٹی ڈھانچوں میں نئے عہدیداروں کے ذریعے ردوبدل کرنے کی اصل وجہ مہنگائی کے ہاتھوں پی ٹی آئی حکومت کا تیزی سے غیرمقبول ہونا تھا۔ اگر پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں کی بنیاد پر پارٹی عہدیداروں کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی تو پھر پی ٹی آئی خیبر پی کے کو پرویز خٹک کے حوالے کرکے اسی ’’عطار‘‘ کے لونڈے سے دوا کیوں لی جاتی جو پہلے ہی پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں اور پارٹی ٹکٹوں کی اقرباء پروری کی بنیاد پر غلط تقسیم پر موردِ الزام ٹھہرائے جاچکے تھے۔ اس لئے میری دانست میں پی ٹی آئی کے تنزل میں ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ کے مصداق مہنگائی نے ہی اصل کردار ادا کیا ہے جس کے مہنگائی کے پس منظر تک پہنچتے پہنچتے پی ٹی آئی کے ’’زریں اصولوں‘‘ والے منشور کا ہی پھلکا اڑ سکتا ہے جس کے ذریعے پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے مہنگائی سمیت ہر خرابی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر ان خرابیوں سے قوم کی جان چھڑانے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔
یقیناً اسی تصور کے تحت میں خوش گمانی کا شکار تھا کہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ہونیوالے 14, 13 ضمنی انتخابات اور پھر خیبر پی کے میں ہونیوالے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت سال 2022ء کا آغاز عوام کو ریلیف دینے والی خوشخبریوں سے کریگی۔ اس کیلئے مجوزہ منی بجٹ پی ٹی آئی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس تھا اور میرا گمان تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس مجوزہ ضمنی بجٹ کوٹال کر جہاں عوام کو انکی دوست حکومتی پالیسیوں کی بنیاد پر مطمئن کرنے کی کوشش کریگی وہیں آئی ایم ایف کو بھی میری خوش گمانیوں کے مطابق ٹھوس پیغام دیگی کہ ہم پاکستان کی معیشت کو اسکے شکنجے سے باہر نکالنے کا تہیہ کر چکے ہیں مگر…؎
وائے ناکامی‘ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
پی ٹی آئی حکومت نے گزرے سال 2021ء کے آخری دن پورے دھڑلے کے ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط کے عین مطابق تیار کیا گیا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرکے میری خوش گمانیوں کے سارے کس بل نکال دیئے۔
اس اجلاس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سمیت پارلیمانی پارٹی لیڈران کی عدم شمولیت اپنی جگہ ایک المیہ ہے مگر شوکت ترین صاحب کا تیار کردہ اور اسمبلی میں پیش کردہ ضمنی بجٹ انکے ماضی قریب میں کئے گئے ہر دعوے کو بھی پورے دھڑلے کے ساتھ خود ہی بے آبرو کرنے کا عملی ثبوت نظر آیا۔ اس ضمنی بجٹ کے پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جودھماچوکڑی ہوئی اور زناٹے دار تھپڑوں کی گونج سے منتخب ایوان اپنے موجود ہونے پر شرماتا رہا، اس سے یقیناً منتخب جمہوری نظام کیلئے بھی ماضی جیسے جھٹکوں کی یاد تازہ ہوئی اور میرے دل میں ایک نئی خوش گمانی پیدا ہو گئی کہ سسٹم کو پہنچنے والے اس نقصان کی تلافی 2022ء کو جنم دینے والی رات عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں خاطرخواہ ریلیف دیکر کی جائیگی جس کیلئے سوشل میڈیا پر حکومت کے حوالے سے متعدد خوش گمانیاں زیرِگردش بھی تھیں مگر…؎
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مقدرات کی تقسیم میں جو غم عوام کو مل نہ پائے تھے وہ انہیں پٹرولیم نرخ اوگرا کی سفارشات سے بھی کہیں آگے نکل کر بڑھانے کی صورت میں خود جا کر وصول کرنے کے راستے دکھا دیئے گئے۔ اس طرح نئے سال کے پہلے سورج کی کرنیں ہی اس پورے سال کے دوران عوام کیلئے حزن و ملال کے تسلسل کا پیغام لے کر نمودار ہوئیں۔ گویا…؎
کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اس طرح اپنے ہی دن پھیرنے والے اہلِ اقتدار نے مفلوک الحال عوام کو سال نو کے پہلے ہی دن استاد عاشق جالندھری کے اس ’’زہرِخند‘‘ شعر کا کچوکا بھی لگا دیا کہ…؎
جو تھی قسمت کی سیاہی وہ کہاں ٹلتی ہے
کھیر بھی آئی میرے سامنے دلیا ہو کر
اس ماحول میں اگر وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب اپنے اُگلے ہوئے کو نِگل کر ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والے عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں سختی سے دیکھ رہا ہے‘ یعنی گھور رہا ہے‘ اس لئے مہنگائی کا باعث بننے والی کئی چیزوں کا کرنا ہماری مجبوری ہے۔ تو جناب! مقدروں ہارے عوام کو گھبراتے ہوئے یہ گلہ کرنے کی تو اجازت دیں کہ…؎
آپ تے پیویں بُکاں شربت
سانوں گُھٹ گُھٹ زہر پلاویں
بس یہی حیثیت ہے سلطانیٔ جمہور کی بنیاد بنی جمہور کی جس کا مقدر سنوارنے کے چکمے میں سلطانوں‘ آقائوں‘ عالیجائوں‘ اشرافیائوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ انکی زندگیوں کو بدلتے سالوں کی گرہیں لگتی رہیں گی مگر کوئی سال انکے مقدر کی گرہ کھولنے والا نہیں آئیگا۔
نئے سال کے پہلے دن کے حوالے سے اپنی ایک طویل نظم سے کچھ اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ گر قبول افتدز ہے‘ عزوشرف۔
سالِ نو کا پہلا دن ہے اور میں کھویا بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں پہلا دن تو پچھلے سال بھی آیا تھا
اُس دن سے اس دن تک میری کتنی سوچیں بدلی ہیں
آج بھی دکھی ہوں اور تب بھی غم کا گیت سنایا تھا
٭٭٭
میں نے دیکھا ہے انسانوں کے آباد گھرانوں میں
اکثر شام ڈھلے سے ہی تاریکی چھائی رہتی ہے
ان کے چولہوں میں نہ کوئی آگ جلائی جاتی ہے
ان کے آنگن میں نہ ہفتوں کوئی صفائی رہتی ہے
٭٭٭
بہتر ہے ہم اس دن سے ہی کوئی تدبیر کریں
تاکہ ان تاریک گھرانوں میں بھی کچھ امید بندھے
تاکہ الجھے چہروں پر بھی رونق لوٹ کے آجائے
تاکہ پھر سے کوئی ظالم اپنی خوشیاں چھین نہ لے
٭٭٭
جب تک اپنی قوم کے انساں تن سے ننگے پھرتے ہیں
تب تک اپنی قوم کا ننگا پن بھی چھپ نہ پائے گا
تب تک اپنی قوم تمدن میں نہ آگے جائے گی
جب تک ایک اِک فرد ہمارا پیٹ نہ بھرکے کھائے گا
٭…٭…٭
’’جو تھی قسمت کی سیاہی، وہ کہاں ٹلتی ہے‘‘
Jan 04, 2022