بے شک مشرقی پاکستان میں انڈیا کے ہاتھوں ہولناک شکست کے بعدپاکستان کوناقابل تسخیر بنانیکا خواب پرعمل پیرا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی جرات مندانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں خود مختارانہ فیصلے کرتے ہوئے اسے ایٹمی طاقت بنانے کا بیڑا اٹھایا، آئین دیا،مرزائیوں کو اقلیت قرار دیتے ہوے اسلامی کانفرنس میں امت مسلمہ کے وسائل کو اکٹھا کرنے میں کمال ہمت اور روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کے جبڑوں سے اپنے ملک کو اپنے تئیں آزاد کرنے کی کوشش کی لیکن انہی طاقتوں نے اسے پھانسی کی سزا دلوا کر باعث عبرت بنا نے کی کوشش کی لیکن بھٹوکا بے رحمانہ قتل بھٹو کو لافانی کر گیا اور پاکستان کے اس مقبول ترین لیڈر کومتنازعہ بننا پڑا لیکن اگرہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں آسانی سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے بڑے لیڈر اکثر اوقات متنازعہ ہی رہے۔ حتیٰ کہ ایک مذہب کے ماننے والوں نے دوسرے مذہب کے نبی تک کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تاریخ میں محترمہ بے نظیر کیلئے اس سے بڑی کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ ان کو ان کے موت کے وقت اور آج بھی تمام پاکستانی بشمول انکے مخالفین کے اور دنیا کے رہنمائوں نے غیر متنازعہ قومی اور بین الاقوامی رہنما کے اعزاز اور خطابات سے نوازا ہے۔ تاریخ میں ان کو باہمت ، جرأت مند اصول پرست رہنما کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ان کو یہ مقام ان کی ایک عورت ہونے ناطے نہیں بلکہ پاکستان کی بڑی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف رکھتے ہوئے ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنا اور جمہوریت کو آگے بڑھانا نے پر ملا ۔ اسی جمہوریت کی خاطر انہوں نے نواز شریف سے میثاق جمہوریت کرنا قبول کیا تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو کھل کے کھیلنے کا موقع نہ ملے اور جمہوریت پر شب خون مارنا مشکل ہو چہ جائے نواز شریف اس وقت آئی جے ٓائی اور اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھے جبکہ بے نظیر خالص عوامی جذبات اور بھٹو کیلئے لوگوں کی محبت کا پر تو تھیں۔انکو اپنے سیاسی سفر میں میر مرتضی بھٹو کے اندھے قتل کا صدمہ سہنا پڑا، میر شاہنواز کا جنرل ضیا کی مارشل لامیں پر اسرار قتل بھی دیکھنا پڑا۔اور اپنے باپ کا فوجی آمریت کے ہاتھوںپھانسی کی سزا پانا بھی شامل تھا لیکن اسکے باوجود مسلم اُمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی اس رہنما نے اپنی جان قربان کر دی لیکن امریکی مسلط کردہ افغان پالیسی جو اب ڈی کلاسیفائڈ ڈاکومنٹس جو کہ1975ء کو وائٹ ہاوس امریکی دورے کے دوران اسکے والد بھٹو کے ہنری کسنجر کے مذاکرات کی شکل میں موجود ہیں ،ان میں بھٹو نے کسنجر کی پاکستان کوافغانستان میں روس کیخلاف امریکی جنگ میں شرکت کیلئے مجبور کیا گیاتھا اور بھٹو نے صاف انکار کر دیا تھا ۔یہ بھٹو حکومت کو امریکی حکم نہ مانے کی سزا ملنے کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی، جس کی وجہ سے بھٹو کو ذلیل ورسوا کر کے حکومت سے نکالا گیا اور بعد میں یہی کام جنرل ضیا سے افغان جنگ میں شمولیت کروائی گئی جو ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے واضح ہوجاتی ہیں۔ رابرٹ گیٹ جو افغان وار میں امریکہ کے وزیر خارجہ رہے ہیں انہوں نے اپنی کتاب ،،ان دی لائن آف ڈیوٹی،، میں امریکی خفیہ اداروں کی افغانستان میں ستر کی دہائی کے آغاز ہی سے ان کی موجودگی کا دکر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ دیر سے پاکستان کو اس جنگ جو بعد میں مشرف کو دبائو ڈال کر شامل کیا گیا اور دو ہزار ایک کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں تبدیل کر دی گئی، اسکے ڈانڈے ملتے ہیں۔ لیکن امریکہ کے دبائو کے باوجودمحترمہ بے نظیر نے مشرف کے ساتھ یا عدلیہ کے ساتھ غیر جمہوری محاذ آرائی قبول نہ کرتے ہوئے امریکی ٹرانسفر آف پاور کا منصوبہ جس میں جنرل مشرف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا تھا ، انکار کر دیا۔ اس باہمت خاتون نے امریکی وزیر خارجہ نیگرو پانٹے کو ملنے سے بھی انکار کر دیا جو بے نظیر کو دہشت گردی کی جنگ میں امریکی مہرے مشرف کی حمایت پر مجبور کرنے پاکستان آیا تھا جس سے بش انتظامیہ ان سے ناراض ہو گئی تھی۔اور اسکے بعد ان کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ ہو گیا اور وہ انہی تاریک راہوں میں مار دی گئیں جن پر چلتے ہوے پہلے لیاقت علی مارے گئے تھے ۔ انیس سو اکاون کی ڈی کلاسیفائڈ ڈاکومنٹس میں جو امریکی حکومت تیس سالوں بعد پبلک کر دیتی ہے اس میں جناب لیاقت علی خان کا ایران کے تیل ریفائنری کے سلسلے میں امریکی صدر ٹرومین کا حکم ماننے سے سے انکار کا پورا ذکر ہے ۔ جناب لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کی اور کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے ۔چیس بورڈ آف ورلڈ پالیٹکس میںآج کے روس کا صدر پوٹن بیشک کچھ نقصان اٹھا لے ، لیکن اس نے امریکہ کی یور ایشیا کی پالیسی کو چیلنج کر دیا ہے جس میں روس کو سابقہ عالمی قوت کی بجائے صرف یورپ تک محدود رکھنا ان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔اس امریکی پالیسی کے مطابق روس کے ٹوٹنے کے بعددنیا تین طاقتور بلاکوں میں تقسیم ہو گی جو امریکہ، چین، یورپ کی بجائے یورپ اور ایشیا کے ممالک پر مشمل تیسرا طاقت کا محور جسے ،،یوریشیا ،،کہا جاتاہے پر مشتمل ہوگی۔یاد رہے امریکی خارجہ پالیسی میں کسی مسلم ملک بشمول پاکستان کو ایٹمی طاقت کے حصول کی اجازت قطعی نہ تھی۔ اس امریکی پالیسی سے بھٹو کے انحراف کی وجہ سے پاکستان کو بھی صرف ایٹمی طاقت کے حصول کی وجہ سے امریکی عتاب کا سامنا ہے اور رہے گا۔جس کی ہمارے سیاست دانوں، عوام نے جانوں کی قربانی دے کر خمیازہ اٹھایا ہے محترمہ بے نظیر کا اندوہناک قتل اسی سلسلے کی کڑی ہے بے نظیر اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کو ناقابل تسخیر جمہوری سلطنت بنانا چاہتی تھیں۔اس خاتون نے صبر، برداشت کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے باپ کے برعکس اپنے دشمنوں اور مخالف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلتے ہوئے ایک عملیت پسند دور اندیش رہنما کا مشکل کر دار ادا کیا۔بالکل ایسے ہی جیسے نیلسن منڈیلا نے سفید فام حکمرانوں سے لڑائی کی بجائے مذاکرات کر کے ان سے اپنے عوام کے لئے حق خود اختیاری حاصل کر لیا تھا۔