ہوا، پانی اور خوراک کسی بھی جاندار کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک چیز کی بھی کمی رہ جائے، یا اُس کی عدم فراہمی ہو تو کسی بھی جاندار کا زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ ہوا، پانی اور خوراک کی کمی یا عدم دستیابی کا مطلب سیدھا سیدھا موت کو آواز دینا ہے۔ ہوا آکسیجن کا ذریعہ ہے جو سانس چلاتی اور تنفس کو بحال رکھتی ہے جبکہ کسی بھی جاندار کے لیے خورا ک کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جتنا ہوا کا ہونا یا آکسیجن سے سانس کا چلنا، خوراک نہ ملنے یا اُس کی عدم دستیابی سے کوئی بھی جاندار نحیف و نزار ہو کر موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔ جبکہ پانی کی ضرورت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے خوراک کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ پانی دستیاب نہ ہو تو فصلیں بھی نہیں ہو سکتیں جو انسانی اور حیوانی خوراک کا بڑا ذریعہ ہیں۔جن زمینوں کو پانی دستیاب نہیں ہوتا وہ ویران اور بنجر ہو جاتی ہیں۔ وہاں زندگی کے آثار مٹنے لگتے ہیں۔ تھر میں پانی کی عدم دستیابی سے ہر سال سینکڑوں پالتوجانور بھوک اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔ فصلوں کے لیے دستیاب پانی کابڑا ذریعہ ہمارا نہری اور دریائی نظام ہے۔ بارشوں سے بھی پانی حاصل کیا جاتا ہے جبکہ ٹیوب ویل بھی ہماری زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والا پانی پینے اور دیگر ضروریات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔پانی سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔ پن بجلی کے متعدد یونٹ ہمارے ملک میں روبہ عمل ہیں جن سے ہمیں بہت ہی سستی بجلی مہیا ہوتی ہے۔ پن بجلی کے یونٹ ڈیموں پر لگائے گئے ہیں تاہم نہروں پر بھی چھوٹے پیمانے پر پن بجلی کے یونٹ کام کر رہے ہیں جن سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ تیل اور ڈیزل کی نسبت پانی سے بنائی جانے والی بجلی نسبتاً بہت سستی پڑتی ہے۔ ٹیرف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر پانی سے بجلی بنائی جائے اور زیادہ سے زیادہ پن بجلی کے کارخانے لگیں تو نا صرف عام صارفین کو سستی بجلی مہیا ہو سکتی ہے بلکہ ہماری فیکٹریاں، کارخانے اور دیگر صنعتی یونٹس بھی اس پن بجلی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح صارفین کو بھی سستے داموں مختلف پراڈکٹس مہیا ہو سکتی ہیں ۔پانی پر سیر حاصل گفتگو کے لیے ہم نے آج کے اس کالم کا انتخاب کیا ہے۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہی ہو گا کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای )پاور کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں سے توانائی کے شدید بحران کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہے۔ اس کے باعث ملک کو اب تک پانچ کھرب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ جو ایک غریب ملک کے خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے پچھلے دنوں ’’پاور سیکٹر‘‘ کے نام سے ایک کتاب کا اجراء کیا ہے۔ جس میں فوری طور پر تمام نجی اور سرکاری کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ شامل ہے، تاکہ ان کمپنیوں میں کرپشن اور غیر ضروری طور پر ہونے والے خطیر اخراجات کا کھوج لگایا جا سکے۔اس وقت پاکستان میں توانائی کا شعبہ شدید ترین بحرانی عمل سے گزر رہا ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.44کھرب تک پہنچ چکا ہے۔ انسٹیٹیوٹ نے پاور سیکٹر کے ماہرین پر مشتمل ایک پاور کمیشن تشکیل دیا ہے۔ یہ ماہرین دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ امید ہے قائم ہونے والے اس پاور کمیشن کے ذریعے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی سامنے آئے گی اور اس سیکٹر میں کوئی بہتر اور مستقل لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے گا۔پاکستانی انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی شدید عدم دستیابی اور اُس کے باعث روز بروز بڑھتے ہوئے بحران کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے اور کہا ہے کہ ڈیم نہ ہونے سے ہی یہ ساری صورتِ حال ہمیں برسوں سے درپیش ہے اور ہمیں مستقل سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اگر ہم نے پانی کے حصول میں کامیابی حاصل نہ کی اور ملک میں دریائو ں اور نہروں پر پن بجلی کے سمال پراجیکٹ نہ لگائے تو ہمارے لئے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔ زمین کے نیچے پانی کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔ سطح آب اس حد تک نیجے گر چکی ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں آسانی سے پانی بھی دستیاب نہیں ہو سکے گا۔ سطح زمین کے نیچے کم ہوتے پانی کے ذخائر نے مزید مسائل اور الجھنیں پیدا کر دی ہیں۔ مذکورہ کتاب نے پاور سیکٹر کے شعبوں میں گہری بصیرت فراہم کرنے کے علاوہ پاور سیکٹر میں قابل عمل، پائیدار اور بہت سے مربوط حل بھی تجویز کیے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک پاور سیکٹر سے متعلقہ کمپنیوں میں آڈٹ کے نظام کو بہتر نہیں بنایا جاتا ، ان میں کرپشن، بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوتا ، ہم پاور سیکٹر کو مضبوط تر نہیں بنا سکتے۔
کتاب میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ نجی سیکٹر کو بھی پاور سیکٹر کے طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے۔ دلچسپی رکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں۔ ٹیرف کو بھی باریک بینی سے ریویو کیا جائے تاکہ اچھے نتائج برآمد ہو سکیں۔
ہمیں آزاد ہوئے 75برس ہو چکے لیکن ہم ملک کے بنیادی مسائل کو نہیں سمجھ سکے۔ کالا باغ ڈیم بن جاتا، اور ملک میں مزید ڈیموں کی منصوبہ بندی ہوتی تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے اور آج ہمیں ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم کچھ فیصلے کر لیں،ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری جنگِ عظیم ہو گی تو پانی کے ایشو کو لے کر ہو گی کیونکہ مستقبل میں پانی دنیا کے لیے بہت سنگین مسئلہ بن جائے گا۔