چند روز گذرے ہیں سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ویسے یہ کام وہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں، بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کام صبح دوپہر شام دوائی استعمال کرنے کی طرح کرتے ہیں۔ اب وہ عمران خان ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ مقبول بھی ہیں، لوگ ان کی بات سنتے اور مانتے بھی ہیں، وہ زعم یہ بھی رکھتے ہیں کہ ان سے بہتر کوئی سوچ نہیں سکتا، ان سے بہتر کوئی پاکستانی نہیں ہے، ان سے بڑا کوئی محب وطن نہیں ہے، ان سے بڑھ کر قوم کا کوئی ہمدرد نہیں، ان سے زیادہ کوئی ایماندار نہیں، ان سے زیادہ بہتر سوچنے والا کوئی نہیں، ان سے زیادہ دلیر اور بہادر کوئی نہیں، ملک کی نمائندگی ان سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی نہیں کر سکتا۔ یعنی ہر وہ غلط فہمی جو خود پسندی کے مرض میں مبتلا کسی بھی شخص کو ہو سکتی ہے وہ اس کا شکار ہیں۔ ان حالات میں وہ دن میں تین مرتبہ تو کیا ہر دوسرے منٹ کسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر کوئی عہدے پر نہ رہے تو پھر خان صاحب اس کے ساتھ کوئی نرمی کریں یہ تو کسی صورت ممکن نہیں۔ اب ناصرف وہ سابق آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ افواجِ پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ سے بھی ناخوش ہیں اور اس حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔
سابق وزیراعظم ہم عمران خان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ افواج پاکستان کے مضبوط نظام کو توڑ کر ملک دشمنوں کو پاکستان پر حملے کی کھلی دعوت دیں اور ہمارے آباو¿ اجداد کی قربانیوں، شہداءکے خون کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیں۔ ان کے ادارے سے اختلافات ہوں گے ہو سکتا ہے کسی معاملے میں وہ درست بھی ہوں (جس کے امکانات بہت کم ہیں) لیکن ساڑھے تین سال تک حکومت میں رہنے کے بعد اور ساڑھے تین سال تک آرمی چیف، ادارے کی خدمات گنواتے گنواتے اور تعریف کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن اس سے علیحدگی کے بعد ہر ناکامی میں کا ذمہ دار سابق آرمی چیف کو ٹھہرانا یا ان کے جانے کے بعد یہ کہنا کہ وہی سیٹ اپ کام کر رہا ہے یہ کسی بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
آج ان کی ہر گفتگو فوج سے شروع اور فوج پر ہی ختم ہوتی ہے۔ وہ جس انداز میں بات کرتے ہیں اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے سوا کسی کو اس ملک کی فکر نہیں ہے اور وہ شاید یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فوج کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر انہیں فوج کی اہمیت کا احساس ہو تو وہ کبھی ایسی گفتگو ہرگز نہ کریں۔ آج انہیں یہ شکوہ ہے کہ نہ جانے سیاست دان ان کی جماعت چھوڑ کر یا کوئی اور سیاستدان اپنی جماعت چھوڑ کر کسی اور جماعت میں کیوں شامل ہو رہے ہیں۔ عمران خان یہ شکوہ ضرور کریں لیکن اس سے پہلے اپنی جماعت میں شامل دیگر تمام جماعتوں سے نکالے ہوئے یا کسی کے کہنے پر چھوڑ کر آئے ہوئے افراد سے علیحدگی بھی اختیار کریں۔ کیا 2018 کے انتخابات سے پہلے سیاستدان پاکستان تحریک انصاف میں شامل نہیں ہو رہے تھے کاش کے عمران خان کو یہ خیال بھی آتا اور وہ اس حوالے سے سخت موقف بھی اختیار کرتے۔ بہرحال وقت ناصرف گذر اور وقت بدل بھی چکا ہے لیکن
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ماضی میں نون لیگ کے سرکردہ رہنما اور بالخصوص میاں نواز شریف بھی ایسی گفتگو کرتے رہے ہیں۔ شاید دونوں ہی تاریخ سے واقف نہیں اور آج تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ اگر فوج طاقت ور نہ ہو، دفاع مضبوط نہ ہو تو پھر رونا پڑتا ہے۔ کیا سیاستدان یہ چاہتے ہیں اس ملک کے لوگ رونا شروع کریں خدا نہ کرے کہ ایسا وقت آئے۔ یہ رونے کی بات محاورتاً ہرگز نہیں بلکہ گہری تاریخ رکھتی ہے اگر ہم اپنی فوج کو ایسے ہی الجھاے رکھیں جیسا کہ ان دنوں الجھا رکھا ہے، اپنی فوج کو ایسے متنازع بنانے کے لیے کام کرتے رہیں جیسا کہ ان دنوں کر رہے ہیں تو پھر ہمیں تاریخ کو سامنے ضرور رکھنا چاہیے۔ دفاع اور سلامتی کے لیے فوج کا طاقت ور ہونا اور ہر وقت ہر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ہر شہری کو ہر وقت فوج میں شامل ہونے کے جذے سے سرشار رہنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دنوں فوج کے حوالے سے جو رویہ عمران خان اور ماضی میں میاں نواز شریف کا رہا ہے کیا نوجوانوں کی سوچ نہیں بدلی اور اگر سوچ بدلی ہے تو کیا اس سے ملک کو نقصان نہیں ہوا۔ چلیں ماضی میں چلتے ہیں کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ لوگ اختلاف کریں لیکن کہیں نہ کہیں اس واقعے میں ہمارے لیے بڑا سبق ضرور ہے۔
وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ الحمراءکی چابیاں بادشاہ کو دیتے وقت کہنے لگے:
"یہ چابیاں اندلس میں عربوں کی حکمرانی کی آخری نشانی ہے ، آپ انہیں لے لیجئے کیونکہ خدا کی مشیت کے مطابق ہمارا ملک ، مال اور جانیں سب آپکی ملکیت میں ہیں"۔یہ کہتے ہوئے وہ چابیاں اس سے گر گئی ، اٹھانے کے لئے جب جھکے تو بادشاہ نے اسکا کندھا پکڑا اور کہا:"الحمراءایسی دولت ہے جسکے لئے ہم تمھارے قدموں میں جھکنے کے لئے تیار ہے"،اور اسکےساتھ ہی وہ بھی جھکے اور اس کے قدموں سے وہ چابیاں وصول کی۔یہ کسی ڈرامے کا سسپنس منظر نہیں بلکہ ایک قوم کے طلوع ہونے اور ایک دوسرے قوم کے غروب ہونے کی وہ سچی داستان ہے جو آج ہی کے دن دو جنوری 1492 کو وقوع پذیر ہوئی تھی جسکے ہر باب پر آنسووں اور خون کےدریا ہیں،یہ مسلم سپین یا ہسپانیہ کے زوال کی کہانی ہے، اس فاتح بادشاہ کا نام فرڈینینڈ تھا اور مفتوح بادشاہ کا نام ابو عبداللہ تھا، الحمراءکی چابیاں دیتے وقت اسپین اور پرتگال پر مسلمانوں کی سات سو سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہو گیا ، ابو عبداللہ غرناطہ سے نکلا اور دور پہاڑی پر سستانے کے لئے بیٹھ گیا اور پیچھے غرناطہ کی طرف دیکھا تو زور زور سے رونے لگا جس پر اسکی ماں نے یہ تاریخی جملہ کہا:"اگر مردوں کی طرح جنگ نہ کر سکے تو عورتوں کی طرح آنسو بہانے کی ضرورت نہیں"۔جس جگہ ابو عبداللہ نے آنسووں بہائے تھے آجکل وہاں پر ایک گاوں ہے جسکا نام suspiro dil moro ہے، سپینش زبان میں suspiro کا مطلب ہے لمبی آہیں اور moro کا مطلب ہے مسلمان یعنی اس جگہ کا نام ہے مسلمانوں کی آہیں۔ یوم سقوط اندلس یا یوم سقوط غرناطہ گذرا ہے ، وہ دن جسکے بعد مسلمانوں نے ہسپانیہ اور غرناطہ کھو دیا۔ ہم نے بھی آدھا ملک گنوا دیا ہے اور بچا ہوا ملک ہمارے مظالم برداشت کر رہا ہے، ہم کب اصلاح کی طرف جائیں۔