دہشت گردی :وزیراعظم اور آرمی چیف کا عزم

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑپھینکیں گے۔ دوسری طرف نئے آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے بھی کورکمانڈر زکانفرنس منعقد کی ہے،جو دوروز جاری رہی، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کرکے یہ لعنت ختم کی جائے گی۔
پاکستان نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں بے مثال کامیابی حاصل کرلی تھی ،لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے یہ عفریت پھر سراٹھارہا ہے ۔ بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر دہشت گردوں نے عملے کو یرغمال بنالیا ۔ بلوچستان اور افغان سرحد پر بھی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں، جن میں پاک فوج کے اعلیٰ افسر اور جوان اپنے خون سے شہادتوں کے نئے عنوان رقم کررہے ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بارود سے بھری ایک وین رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ، مگر ڈرائیور نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی جگہ پرخودکش دھماکہ کردیا۔جس سے پولیس کے جوانوں کا جانی نقصان ہوا، اس وین کو نہ روکا جاتا تو خداا جانے اس نے کہاں جاکر خودکش حملے کی واردات میں استعمال ہونا تھا اور سینکڑوں بے گناہوں کو خون میں رنگنا تھا۔ میڈیا میں یہ خبریں عام آرہی ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے عناصر جگہ جگہ قدم جمانا شروع ہورہے ہیں ، عام لوگوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری حکام تک سے تاوان وصول کیا جارہا ہے ۔ یہ صورتحال کسی بڑے حادثے اورتخریب کاری کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
مصیبت یہ ہے کہ پچھلے نو سال سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی پارٹی کی حکومت بلاشرکت غیرے قائم ہے اوریہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ طالبان کی حمایت کی وجہ سے انہیں طالبان خان بھی کہا جاتاہے ۔ اب اگر عمران خان خود اپنی زبان سے طالبان خان ہونے کا اقرار کررہے ہیں ،تو یہ کہنا کوئی الزام تراشی نہیں ہوگی کہ ان کے نرم گوشے کی وجہ سے طالبان کو پورے صوبے میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے سازگارماحول میسر آیا ہے ۔ ویسے تو پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کا پانچواں سال شروع ہوچکا ہے ۔ خدا نہ کرے کہ اس حکومت نے بھی طالبان کے بارے میںکوئی نرم رویہ اختیار کررکھا ہو۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب میں بھی دہشت گردمورچہ بند ہوگئے ہوں ۔ یہ صورتحال ملک کیلئے خدانخواستہ انتہائی خطرناک ہوگی۔ 
شکر ہے کہ وزیراعظم نے بھی کابینہ کے اجلاس میں  اس صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے اور پاک فوج کے کور کمانڈر زنے بھی اپنے دو روزہ اجلاس میں اس فتنے کی سرکوبی کیلئے سوچ بچارکی ہے ۔ عمران خان کی پارٹی کو پاک فوج سے خداواسطے کا بیر ہوگیا ہے ،اس نے اپنے سیاسی بیانات میں پاک فوج کو یہ طعنہ دینا شروع کردیا ہے کہ کہاں گیا دہشت گردی کے خاتمے کا آپ کا دعویٰ…!
دہشت گردوں نے پچھلے بیس برسوں میں پاکستان کے جسدِ قومی کو لہولہان کردیا ہے ۔ اسّی ہزار لوگوں کو شہید کرنے والوں اور قومی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب کا ٹیکہ لگانے والوں کے ساتھ عمران خان کی ہمدردیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دہشت گردی کے اس فتنے کی سرکردگی بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کرتی رہی ہے ، یہ ایجنسی پاکستان کی کبھی دوست نہیں ہوسکتی۔ اس نے بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ۔ کراچی کا ائرپورٹ ہو یا نیول بیس، راولپنڈی کا جی ایچ کیو ہو یا پشاور کا آرمی پبلک اسکول ۔آئی ایس آئی اور ایف آئی اے کے دفاتر ہوں ،مزارات اور مساجد ہوں ، امام بارگاہیں ہوں یا جنازے ہوں ۔ مارکیٹیں یا ریلوے اسٹیشن اور بسوں کے اڈے ہوں، ہرجگہ دہشت گرد دندناتے رہے  اور پاک فوج اور دیگرسیکورٹی ادارے سینہ تانے ان کے مذموم وار سہتے رہے۔ کیا یہ لوگ ان مذموم کارروائیوں کے باوجود بھی کسی ہمدردی کے قابل ہیں   ؟
بے شک دہشت گردی ایک عالمی فتنہ ہے۔ افریقہ کے صحرائوں سے لے کر نیویارک کے ورلڈٹریڈ سینٹر تک ،سعودی عرب اور یورپی ممالک کو دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا ہے ۔ اس دہشت گردی کے عالمی فتنے کے خاتمے کیلئے امریکی اور نیٹو فورسز نے جگہ جگہ دہشت گردوں کا تعاقب کیا۔ ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن یہ فتنہ پھیلتا ہی چلا گیااور اس نے پاکستان کو بھی اپنی خونی لپیٹ میں لے لیا۔ مگر دہشت گردپاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوںاوربے مثال قربانیوں کو بھول گئے تھے۔ یہی بھول انہیں سخت مہنگی پڑی۔کیونکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔انسانیت کو درپیش اس مسئلے کی سرکوبی کیلئے پاک فوج کو ایک طویل جنگ لڑنا پڑی اور لاتعداد قیمتی جانوں کے نذرانے دینے پڑے، تاہم دو عشروں کے اندر پاک فوج نے پورے ملک کو خطہ امن میں تبدیل کردیا۔ قبائلی علاقوں کو پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں میں ضم کردیا گیا ، مگر کیا کیا جائے ،کہ گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھارہے ہیں۔ جب گھر کے  لوگ بھی  طالبان کے لئے نرم رویئے کا اظہار کریں گے   تو لامحالہ طالبان کے دہشت گردوں کو شہہ ملے گی اور وہ نئے سرے سے سراٹھارہے ہیں۔ مگر انہیں آگاہ رہنا چاہئے کہ پاک فوج اپنے فرض منصبی سے غافل نہیں، نہ ہی حکومت ِ پاکستان کوئی ڈھیل دینے کی روادار ہے ۔ اب ایک طرف وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کا سرکچلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، دوسری طرف نئے آرمی چیف نے اپنی پہلی کورکمانڈرزکانفرنس کا ایجنڈا بھی دہشت گردی پر مرکوز کردیا ہے ۔ پاکستانی قوم بھی ایک بارپھر دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر کرنے پر تیار نہیں نظرآتی۔ وہ حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردوں سے دو دوہاتھ کرنے کو تیار ہے۔قوم نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں، وہ اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی اور پاکستان کے خدائی عطیہ کو امن و امان کا گہوارہ بناکر دم لے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...