بدھ،11  جمادی الثانی    1444ھ، 4 جنوری 2023ء

پاکستانی حکام کے دعوے پڑوسیوں سے تعلقات خراب کریں گے۔ افغان وزارت دفاع 
اب ذرا کوئی افغان حکومت سے پوچھے کہ جناب تعلقات آپ خراب کرنے کے درپے ہیں اور الزام پاکستان پر تھوپ رہے ہیں۔ یہ تو بڑی غلط بات ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں ، منفی شرانگیز نعرے لگائے جاتے ہیں پاکستانی پرچم جلایا جاتا ہے۔ کیا آج تک پاکستان میں ایسا ہی کچھ افغانستان کے خلاف ہوا ہے جو وہاں ہو رہا ہے۔ اب پاکستان کی دوستی اور بھائی چارے کو اگر کوئی خوف یا بزدلی سمجھتا ہے تو یہ بڑی بھول ہے۔ اس لیے اب ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والی منافقانہ پالیسی افغان حکام کو بدلنا ہو گی۔ پاکستان نے روز روز کی جھنجٹ سے بچنے کے لیے افغانستان سے ملحقہ سرحد پر باڑ لگائی اس پر بھی افغان حکام کو مرچیں لگیں حالانکہ انہیں خوش ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان اپنی سرحد کی سکیورٹی محفوظ بنا رہا ہے۔ مگر چونکہ بھارتی ایجنٹوں اور افغان طالبان کے پر وردہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی راہ اس طرح بند ہوئی تھی اس لئے افغان طالبان نے کئی مقامات پر یہ باڑ توڑی اور پاکستانی علاقوں پر اپنی ملکیت کا جھوٹا بے بنیاد دعویٰ کیا۔ کیا یہ ہے دوستی اور حق ہمسائیگی؟ سب سے بڑھ کر یہ دہشت گرد گروپ افغانستان سے پاکستانی چوکیوں پر سرحدی محافظوں پر حملے کرتے ہیں۔ کیا یہ افغان حکومت کی مدد یا مرضی کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اگر افغان حکومت اتنے بڑے بارڈر پر دہشت گردی کو روک نہیں سکتی تو پھر اسے چاہیے کہ وہ خود پاکستان کو ان دہشت گردوں اور انکے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کا کہے۔ وہ یہ بھی نہیں کر سکتے اور الٹا پاکستان کی اصولی بات پر شور مچا رہے ہیں۔ ہر ملک کو حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں اور عوام کی حفاظت کے لیے ہرممکن کارروائی کرے۔ اگر افغانستان میں ہمت ہے تو پھر خود ہی اپنے سائے تلے پلنے والے ان بھارتی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرے پھر پاکستان کبھی ایسی بات نہیں کریگا جس پر افغان حکومت تلملا رہی ہے۔ 
٭٭٭٭
عمران خان کو سندھ یا بلوچستان کی جیل میں دیکھ رہا ہوں۔ منظور وسان 
ہم تو سمجھتے تھے منظور وسان پے درپے اپنی پیش گوئیوں کو پورا ہوتا نہ دیکھ کر اس میدان سے تائب ہو گئے ہوں گے مگر لگتا ہے وہ بھی شیخ رشید کی طرح ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ والے اصول پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ انکی پیش گوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں وہ حسبِ عادت کوئی نہ کوئی ’’شدنی‘‘ چھوڑتے رہتے ہیں۔ عوام کا حافظہ ویسے ہی کمزور ہوتا ہے۔ وہ چند دن چسکے لینے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ کس نے کیا کہا تھا۔ اب منظور وسان کا یہ کہنا ’’اس سال عمران خان پر مصائب منڈلاتے رہیں گے اور میں انہیں سندھ یا بلوچستان کی جیل میں دیکھ رہا ہوں‘‘ کچھ زیادہ ہی جذباتی قسم کا بیان تو کہا جا سکتا ہے پیش گوئی نہیں کیونکہ سندھ والے تو کسی صورت بھی یہ ناخوشگوار فریضہ انجام نہیں دیں گے۔ وہ اپنے صوبے میں بلاوجہ کی کوئی بدامنی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ رہی بات بلوچستان کی تو وہاں البتہ دور دراز مقامات پر بنی جیلیں جن میں مچھ جیل خاصی شہرت رکھتی ہے، میں جگہ نکل سکتی ہے۔ مگر اس پر جب تک وہاں کی حکومت راضی نہیں ہوتی وہاں کسی خطرناک قیدی کو رکھنا ذرا مشکل ہے۔ ویسے پی ٹی آئی والے بھی ابھی اتنے گئے گزرے نہیں کہ وہ خاموشی سے اپنے قائد کو سندھ یا بلوچستان کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں اُٹھاتا دیکھیں اور خاموش رہیں۔ ویسے جب گڑ سے ہی کام نکلتا ہو تو پھر زہر نہیں دیا جاتا۔ فی الحال عمران خان کے اردگرد ان کے اپنوں اور غیروں کی مہربانیوں سے گھیرا تنگ ہو رہا ہے ان کیلئے یہی مصیبت کافی ہے۔ ویسے بھی وہ زمان پارک میں ہوں یا بنی گالہ یہ بھی تو کسی خود ساختہ نظر بندی یا جیل والی کیفیت سے کم نہیں۔ 
٭٭٭٭
سمبڑیال میں بیٹے کی شادی پر ملکی و غیر ملکی کرنسی کی برسات موبائل فونز سمیت 23 لاکھ روپے نچھاور کیے 
اب کون مانے گا کہ ہمارے ہاںلوگ مہنگائی کی وجہ سے بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ ایک طرف لوگوں کا یہ حال ہے کہ دوسری طرف شادیوں پر لاکھوں لٹاتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے ہمارے کنگال ملک کے حکمران جب غیر ملکی دوروں پر امداد لینے جاتے ہیں تو ان کے زرق برق قیمتی لباس، جوتے اور گھڑیاں اور بڑے بڑے وفد دیکھ کر جو شاید سیرسپاٹے کے لیے ساتھ آتے ہیں کیونکہ انہوں نے دیارِ غیر میں کرنا ہی کیا ہوتا ہے، یہ فوج ظفر موج دیکھ کر ان ممالک کے حکمران کیا سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسے کنگلے ہیں جو شاہانہ جلوس کے ساتھ کشکول اُٹھائے چلے آتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ویسے ہی بات سے بات نکلی۔ ہمارے عوام کے لچھن بھی اپنے حکمرانوں سے کم نہیں ایک طرف 70 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں دوسری طرف 10 فیصد سفید پوش اپنی عزت بچانے میں مصروف نظر آتے ہیں رہ گئے باقی 20 فیصد اشرافیہ تو ان کی بات چھوڑیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ان 10 فیصد سفید پوشوں کی حالت بھی بگڑی ہوئی ہے۔ کسی کے پاس چار پیسے کیا آ جاتے ہیں وہ اسے یوں لٹاتا ہے کہ اشرافیہ بھی حسد سے جلنے لگتے ہیں۔ اب سمبڑیال میں اس شادی کو ہی دیکھ لیں لڑکے والوں نے بارات پر23 لاکھ روپے ہی نہیں لٹائے قیمتی موبائل اور سوٹ بھی لٹائے۔ یہ تو پرانے زمانے کے شہزادے شہزادیوں والی شادی بن گئی۔ مگر پرانے دور کے بادشاہ بھی سیانے ہوتے تھے وہ صرف مٹھی بھر سِکے عوام پر اُچھالتے تھے جس پر غریب غربا ٹوٹ پڑتے تھے۔ اب گزشتہ روز بیرونِ ملک سے آئے اس پاکستانی نے ان کا ریکارڈ معلوم نہیں توڑا یا برابر کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی باہر سے آئے کئی پاکستانیوںنے شادی میں اسی طرح پیسے، فونز اور سامان لٹایا۔ اتنے پیسوں سے تو کئی غریبوں کی بیٹیاں اپنے گھر بیاہی جا سکتی تھیں مگر ہمارے ہاں نام و نمود کے مارے نو دولتیے ایسے کاموں کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ 
٭٭٭٭

انسانی آبادیوں میں تیندوئوں کے داخلے کے واقعات بڑھ گئے 
جب موسمی حالات خراب ہوں تو جنگلات کے سکڑتے ہوئے رقبے کی وجہ سے وہاں موجود جنگلی حیات کو پیٹ بھرنے کے لیے اِدھر اُدھر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اب اس اِدھر اُدھر میں وہ تمام انسانی آبادیاں بھی آتی ہیں جو جنگلات کاٹ کر قائم کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارگلہ، مری ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے پہاڑی جنگلات میں شدید برفباری کی وجہ سے جب شکار کم ملے تو یہ پہاڑی چیتے، تیندوے، ریچھ اور بھیڑئیے قریبی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں دستیاب کھانے پینے کی اشیا پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ان میں گائے بھیڑ بکریاں اور دیگر چھوٹے موٹے جانور ان کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ یہ کسی انسان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اب ان بے چاروں کو ہمارے کم عقل لوگ گولیاں مار کر پتھرائو کر کے یا ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہ بڑا ظلم ہے کیونکہ ہمارے پاس اب صرف انہی پہاڑی جنگلات میں نایاب قسم کے کچھ جانور باقی رہ گئے۔ ورنہ میدانی علاقوں میں تو کوئی جانور بچا ہی نہیں سوائے سؤرکے۔ ہاتھی، شیر ، گینڈے، چیتے ، زرافے ، زیبرے اسی قبیل کے دیگر جانور جو تھے انہیں برطانوی دور میں انگریزوں اور ہندوستان کے نوابوں اور مہاراجوں نے شکار کر کے ختم کر دیا۔ اب پاکستان میں تو کچھ نہیں البتہ بھارت میں کچھ جنگلی حیات موجود ہے جہاں وائلڈ لائف کا محکمہ فعال ہے۔ اب ہمارے محکمہ وائلڈ لائف کوبھی چاہیے کہ وہ ان جنگلی جانوروں کی بقا کے لیے فوری طور پر ان علاقوں میں جہاں ان کی موجودگی پائی گئی ہے اپنی ٹیمیں بھیجے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ ان نایاب جانوروں کو مارنے کی بجائے وائلڈ لائف والوں کو اطلاع دیں تاکہ وہ انہیں باحفاظت محفوظ مقام تک پہنچا دیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...