سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان جہاں پہنچ گیا، بڑی سرجری کرنا ہو گی۔
پاکستان اس وقت جس سیاسی عدمِ استحکام اور معاشی بدحالی کا شکار ہے وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس میں ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں، خامیوں اور نالائقیوں کا بڑا عمل دخل ہے جو برسوں پر محیط ہیں۔ اگر عمران خان کے بقول ان بُرے حالات کے لیے سرجری کی ضرورت ہے تو درحقیقت یہ سرجری پہلے انہی برسوں سے برسرِ اقتدار رہنے والی جماعتوں کی ہونی چاہیے جن کی وجہ سے پاکستان اس نہج پر پہنچا۔ گزشتہ تیس برسوں کے دوران فوج کے علاوہ تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (نواز) پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی حکمرانی رہی ہے۔ انہی ادوار میں اربوں روپے کے قرضے حاصل کیے گئے۔ قومی وسائل کا بے دریغ اور بے رحمانہ انداز میں استعمال کیا گیا۔ عدل و انصاف عنقا رہا ہے۔ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور اعلیٰ مناصب پر میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں بڑی خرابی کا باعث بنی ہیں۔
اداروں میں تصادم، ذاتی مفادات کی سیاست، سیاسی جماعتوں میں محاذ آرائی، چپقلش اور رسہ کشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس سے ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ، ایسی پالیسیاں تشکیل دی گئیں جن پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک میں بیروزگاری، غربت و افلاس اور مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ مسائل بڑھ گئے اور زندگی گزارنا عام آدمی کے لیے مشکل ہو گیا۔اس صورت حال کے باعث ترقی کا عمل رُک گیا اور ملکی ترقی و خوشحالی ایک خواب بن کر رہ گئی۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نشاندہی سابق وزیر اعظم عمران خان نے کی ہے جس کے وہ خود بھی ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے عامیانہ و بازاری زبان اور غیر اخلاقی لب و لہجہ اختیار کر کے غیر سنجیدہ سیاسی کلچر کو رواج دیا اور سیاست کو بے توقیر کر دیا ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاستدان اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنے کردار کا جائزہ لیں اور خود احتسابی کے ساتھ اس کا تجزیہ کریں موجودہ حالت تک ملک کو پہنچانے میں ان کا کتنا حصہ ہے اور اب ملک کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے وہ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ معاملات کو واقعی سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اس جانب عملی طور پر قدم بڑھانا ہو گا۔ مفاداتی سیاست ترک کر کے ہی ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔