وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے دوسرے روز کے اجلاس میں دہشت گردی کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزراء اور مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے۔ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ پوری ریاستی قوت سے نمٹا جائیگا اور پاک سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاست کی رٹ برقرار رکھی جائیگی۔ اجلاس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرنو کیلئے تمام وسائل متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق اجلاس میں قرار دیا گیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے جبکہ معاشی خودانحصاری اور خودمختاری کے بغیر قومی خودمختاری اور وقار پر دبائو آتا ہے۔ اس تناظر میں اجلاس میں موجود معاشی صورتحال کے ان پہلوئوں کا جامع جائزہ لیاگیا جن کے باعث پاکستان کے عام آدمی بالخصوص لوئر مڈل کلاس کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کے شرکاء کو معاشی استحکام کیلئے حکومتی روڈمیپ پر بریف کیا جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہونیوالی بات چیت اور باہمی مفاد پر مبنی دیگر اقتصادی ذرائع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کیلئے ریلیف کے جامع اقدامات شامل ہیں۔ معیشت کی مضبوطی کیلئے کمیٹی نے ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس میں اس امر پر زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان اور قومی سکیورٹی پالیسی کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیادت کریں گی اور سازگار و موزوں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کیلئے مسلح افواج ایک ٹھوس ڈیٹرنس فراہم کریں گی۔ اجلاس میں صوبائی ایپکس کمیٹیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور طے کیا گیا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں بالخصوص انسداد دہشت گردی کے محکموں کی صلاحیتوں اور استعداد کار کو مطلوبہ معیار پر لایا جائیگا اور کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
بلاشبہ دہشت گردی کا ناسور تو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے اس ارض وطن کی فضائوں پر آسیب بن کر چمٹا ہوا ہے جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور محاذآرائی کے باعث وطن عزیز کو سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا ہے جس نے ملک کی معیشت کی بربادی کے راستے بھی کھولے ہیں۔ ارض وطن میں دہشت گردی کا سلسلہ تو افغان سرزمین پر امریکی نیٹو افواج کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بننے سے متعلق ہمارے سابقہ فوجی حکمران جنرل (ر) مشرف کے غلط فیصلے سے شروع ہوا تھا کیونکہ اس فیصلے کے ردعمل میں ہی طالبان گروپوں اور دوسرے انتہاء پسندوں کی جانب سے ہماری سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اور طرفہ تماشا یہ ہوا کہ جس امریکہ کی خاطر ہم نے خود کو افغان جنگ میں دھکیلا‘ اس نے بھی ہم سے ڈومور کے تقاضے کرتے کرتے ہماری دھرتی کو ڈرون حملوں کی زد میں لانا شروع کر دیا جس سے ہماری دھرتی پر انسانی خون ہی نہیں بہا‘ ہماری خودمختاری کو بھی بٹہ لگا۔
بدقسمتی سے مشرف آمریت کے بعد ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے بھی افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار برقرار رکھا جس کا ہمیں اپنے 80 ہزار سے زائد شہریوں کی شہادتوں کی صورت میں بھی اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا بٹہ لگنے کی صورت میں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی کے ردعمل میں تحریک طالبان نے پاکستان میں بھی اپنی تنظیم قائم کی اور یہاں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے جبکہ انہیں تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے کمک ملتی رہی جس کی مدد سے انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسکے سدباب کیلئے میاں نواشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ملک کی تمام سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مشترکہ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں ٹھوس لائحہ عمل طے کرکے دہشت گردوں کیخلاف شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مختلف اپریشنز کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر اپریشن کا دائرہ پورے ملک میں بڑھا دیا گیا۔ ان اپریشنز کے ذریعے ہماری سکیورٹی فورسز نے اپنی بے بہا شہادتوں کے عوض ملک کی سلامتی اور امن و استحکام یقینی بنایا اور دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تاہم ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کابل انتظامیہ کو ہلہ شیری دی جس کی معاونت سے بھارت نے افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان میں داخل کرنا شروع کر دیا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہماری پرخلوص کوششوں سے افغانستان میں امن کی بحالی‘ امریکی فوجوں کی واپسی اور طالبان کی کابل کے اقتدار تک دوبارہ رسائی تو ممکن ہو گئی مگر اقتدار میں آنے کے بعد طالبان قیادتوں نے ہمیں ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں جنہوں نے نہ صرف پاک افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑی بلکہ پاکستانی پرچم کی بھی توہین کی اور پھر دہشت گردوں کو افغانستان سے پاکستان داخل ہونے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ انہوں نے اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر افغان فورسز کے ذریعے بھی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کابل کی طالبان انتظامیہ کو ہماری سیاسی قیادتوں کی باہمی محاذآرائی کے باعث ملک میں پیدا ہونیوالے سیاسی عدم استحکام سے ہی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے اور یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ملک میں سیاسی محاذآرائی کا سلسلہ تھمنے کے بجائے عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور انکی جانب سے شروع کی گئی احتجاجی تحریک کے دوران ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کیخلاف بلیم گیم کا سلسلہ شروع کرنے کے باعث سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہی رہا ہے۔ یقیناً اس صورتحال سے بھی ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ملک کی سلامتی کیخلاف سازشیں بروئے کار لانے کا مزید موقع ملا جبکہ سیاسی عدم استحکام ہی اقتصادی عدم استحکام پر منتج ہوا ہے اور ہماری معیشت سنبھل ہی نہیں پا رہی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے دو روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں ملک کو درپیش ان تمام خطرات اور چیلنجوں کا احاطہ کرکے ہی ملک میں امن و سلامتی اور سیاسی استحکام یقینی بنانے کیلئے ٹھوس قومی پالیسی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس مقصد کیلئے صوبائی ایپکس کمیٹیاں بھی بحال کی گئی ہیں۔ بے شک قومی عزم کے ساتھ ہی دہشت گردی کے ناسور کی شکل میں ملکی سلامتی کیخلاف اندرونی و بیرونی دشمنوں کے عزائم خاک میں ملائے جا سکتے ہیں جس کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز تو ہمہ وقت تیار اور چوکس ہیں اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک مزید قربانیاں دینے کے عزم پر بھی کاربند ہیں۔ اس معاملہ میں اصل ذمہ داری تو ہماری قومی سیاسی قیادتوں کی ہے کہ وہ باہمی چپقلش کے باعث ملکی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کرنے سے گریز کریں اور ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی راہ ہموار کریں۔ ملک قائم و سلامت ہے تو انکی سیاسی دکانداریاں بھی چلتی رہیں گی۔ خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو ایک دوسرے کیخلاف دشنام طرازی اور مفاداتی سیاست کا موقع بھی کہاں مل پائے گا۔