کتاب پڑھنے کا رجحان کمپیوٹر کی وجہ سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ زندگی بڑی فاسٹ ہو گئی ہے ۔ کتاب خرید کر پڑھنا تو ایک طرف بعض لوگ مفت کتاب بھی پڑھنا گواراہ نہیں کرتے ۔ لیکن باہر کے ملکوں میں مطالعہ کا شوق ابھی تک برقرار ہے۔ میرا قیام پینسلوینیا(Pennsylvania) کے چھوٹے سے شہرکینٹ سکوئیر (Kennett Square)میں تھا۔
ایک کتابوں کی دکان گھر کے قریب تھی جہاں لوگ ڈونیشن کیلئے اس بک سٹور میںمفت کتابیںبھجتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ اس دکان کا مالک اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس کا نام ماکالوسو(Macaluso) تھا ۔ وہ ایک کالج کا پروفیسر تھا۔ جہاں 37 سال سے کالج نیو جرسی میں انگریزی پڑھاتا تھا۔ اپنی بیوی کی مددسے اس نے ایک بک سٹور کھولا تھا۔ ہر خاص و عام وہاں کر گھنٹوں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا اور لوگ اس کا جذبہ دیکھ کر کافی مدد کرتے تھے اور دور دراز سے کتابیں لاکر اس کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
وہ ایک امریکی تھا اور انسانیت سے مالا مال تھا۔ کتا بوں کی آمدنی اولڈ ہائوسز اور ہسپتالوں میں جاتی تھی۔ اس وقت 35 ہزار کتابیں اس بک سٹور میں موجود تھیں۔ ۔۔۔۔خوبی کی بات یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہے مگر لوگ ابھی تک کتابیں لاتے ہیں۔ سٹور میں بیٹھ کر پڑھتے ہیںاور کتابوں کا مطالعہ کرنے میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ ان کو دین و دنیا کا ہوش نہیں رہتا۔ جب میں وہاں گئی تواس وقت بھی میں نے ان لوگوں کو مطالعہ کرتے ہوئے مصروف پایا۔
میں شوکیسوں سے لگی کتابوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔ یہ قوم مسلمان نہیں ہے مگر ان کے قوانین اسلام کے عین مطابق ہیں۔ میں ابھی کتابیں دیکھ رہی تھی کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی نے پوچھا ۔
آپ خریداری کے لئے آئی ہیں یا پڑھنے اور ڈونیٹ کرنے ؟
میں نے جواب دیا ۔صرف سروے کرنے آئی ہوں۔ یہ سن کروہ لڑکی جو 30 سال کی تھی۔ نیلی آنکھوں والی اپنے ہمراہ لے کر سارے شوکیسوں کی کتابیں دکھانے لگی ۔ دوسرے بڑے سے ہال میں گئی تو وہاں بھی کافی لوگ کتابیں پڑھ رہے تھے۔ وہ بتا رہی تھی کہ لوگ روزانہ یہاں آ کر مطالعہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ غریب بھی ہوتے ہیں۔ کتاب خرید نہیں سکتے مگر یہاں بیٹھ کراطمینان کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ ایک صاف ستھر سٹور تھا جہاں لاتعداد کتابوں کے ریک تھے کتابیں اتنے قرینے سے رکھی ہوئی تھیںکہ دیکھ دیکھ کر دل خوش ہو رہا تھا۔ اس بک سٹور میں ایک دنیا آباد تھی۔ کئی کمرے تھے جہاں دیواروں کے ساتھ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے کتابیں موجودتھیں ۔ ابھی کتابیں دیکھ ہی رہی تھی کہ چند لوگ کتابیں ڈو نیٹ (donate)کرنے لگے ۔ وہ لڑکی میرے پاس مسلسل کھڑی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا۔
کیا تم یہاں جاب کرتی ہو؟
نہیں میں ایک سکول میں ٹیچر ہوں ۔ غریب نادار لوگوں کیلئے چیرٹی(charity) جمع کرنے کے لیے دوسرے یا تیسرے دن آجاتی ہوں۔اور باقی کے دنو ں میں میرے سکول کی ایک اور ٹیچر آجاتی ہے۔ اس دکان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی موجود نہ ہو۔ ان کے اندر دکھی انسانیت کیلئے جذبہ بڑا نیک ہے۔ کبھی ہمارے پرنسپل بھی آجاتے ہیں۔ ہر کوئی خوشی سے کام کرتا ہے۔ اس لڑکی کی باتیں حیران کن تھیں۔ وہ لڑکی بار بار گھڑی کی طرف دیکھتی تو میں نے پوچھا ۔کیا کسی کا انتظار ہے؟ اس نے جواب دیا ۔ میرا وقت ختم ہوگیا ہے ۔ کسی اور خاتون نے میر جگہ دو گھنٹے کام کرنا ہے۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک وہیل چیئر پر ادھیڑ عمر خاتون سٹور میں داخل ہوئی تو وہ لڑکی چلی گئی اور جانے سے پہلے کہہ گئی۔ اب یہ دو گھنٹے کام کرے گی۔ وہ خاتون دھیرے دھیرے وہیل چیئر گھسیٹتے ہوئے میری طرف لپکی اور پوچھا۔ کوئی کتاب پسند آئی ہے؟
کافی کتابیں پسند آئی ہیں۔ پھر میں نے چیرٹی کی غرض سے بھی خرید لیں تو وہ خاتون کام کرنے لگی ۔ ایک میز پر بے ترتیب کتابیں ڈسٹر سے صاف کرنے لگی اور شیلف میں ترتیب سے لگاتے ہوئے گویا ہوئی۔ یہاں لوگوں کو پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کی نیلی آنکھوں میں چمک تھی۔ باہر آسمان پر شفق کی لالی سے آسمان جل ترنگ تھا۔ یوں لگتا تھا آسمان کے رنگوں کا نکھار اس کی آنکھوں میں اتر آیا ہو۔ وہ خوشدلی سے کام کررہی تھی اور بتا رہی تھی ۔ گھر میں بور ہوتی ہوں تو کتابوں کے سٹور پر آجاتی ہوں ۔ مجھے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ میرا اچھا وقت گزر جاتا ہے۔ میں نے سوچا ہم تیسری دنیا کے لوگ تیسری دنیا کے ہی رہے۔ نمودو نمائیش کے لئے لاکھوں روپے صرف کر دیتے ہیں مگرکسی کی حا جت روائی نہیں کر سکتے۔ کتابیں پڑھنے کا جذبہ میں نے اس سٹور میں دیکھا۔مگر اب جہاں کتابوں کی گفتگو ہوتی ہے وہاں۔۔۔میڈیا پر چلتی فلموں اور ڈراموں کی باتیں ہوتی ہیں۔ گندی سیاست اور اخلاق کی پراگندگی نے اس عادت کو تباہ کر دیا ہے۔ کہاں گئے وہ لوگ جو صرف کتابوں کی باتیں کرتے تھے۔۔۔۔خدا کرے کہ وقت تبدیل ہو جائے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ہم دنوں کو لوگوں میں گھماتے ہیں۔ شاید وہ وقت پھر آجائے۔ آمین۔
میں دکان سے باہر نکل کر فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ کینٹ سکوئیر چھوٹا سا شہر تمام رعنائیو ں کے ساتھ میرے سامنے تھا۔ پروفیسر صاحب خود تو چل بسے اور عمر بھر کے لئے نیکی کا سامان کما گئے۔ میں قاری صاحبان سے یہ پو چھوں گی کہ اگر اسی قسم کا سٹور پاکستان میں ہوتو وہ سٹور کیا اسی طرح پھولے پھلے گا یا چار دن میں اس کا صفایا ہو جائے گا۔۔۔۔؟