راسپوٹین کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ زارِ روس کے اتنا قریب ہوا کہ ریاستی معاملات میں اس کی بے جا مداخلت بھی ہونے لگی۔ شاہی محلات میں اسے اس کی روحانیت لے گئی۔ زار کا بیٹا ولی عہد الیکس،سیلانِ خون بیماری کی اس حد تک جا پہنچا تھا کہ زندگی سے مکمل مایوسی ہوگیا۔ راسپوٹین نے روحانیت کے ذریعے اس کو بیماری سے نجات دلا دی۔ اس پر زارینہ راسپوٹین کی دل کی گہرائیوں سے ممنون تھی۔زارینہ کی وجہ سے ہی راسپوٹین کو محلات میں رسائی اور حد درجہ پذیرائی ملی۔ اپنی عزت میں اضافے کے لیے راسپوٹین ڈرامہ بازی بھی کر لیا کرتا۔ ایک مرتبہ بحری جہاز میں سفر کے دوران طوفان نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔ زار نے پریشانی کے عالم میں قاصد کوبار بار اس کے کیبن میں بھیجا۔ راسپوٹین نے ہر مرتبہ بڑے اعتماد سے جواب دیا کچھ نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر میں طوفان اترنے لگا۔ زار نے اسے راسپوٹین کی کرشمہ سازی سمجھا۔زار اور زارینہ اس کے مزید معتقد ہو گئے۔ راسپوٹین نے استفسار پر اپنے کسی ہمراز کو بتایا جہاز ڈوب بھی سکتا تھا ، اگر ڈوب جاتا تو مجھے کس نے پوچھنا تھا۔ بچ گیا تو عزت میں اضافہ ہو گیا۔
راسپوٹین پر بدترین الزام بھی لگتے ہیں جس سے شہزادہ اس کی جان کے درپے ہوگیا۔اسے بہانے سے محل بلایا۔مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اسے کھانے میں زہر دیا گیا۔ زہر بے اثر رہا تو منہ میں بڑی مقدار میں زہر ٹھونس دیا گیا۔ اس نے بھی اثر نہ کیا تو چارگولیاں مار دی گئیں۔ اچانک وہ فائرنگ کرنے والے پر جھپٹ پڑا۔ شہزادہ ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا تالاب میں پھینک دیا۔ وہ نیم بے ہوشی میں بھی سطح آب پر رہا آخری حربے کے طور پر وزن باندھ کر ڈبو دیا گیا۔ راسپوٹین سیاسی معاملات میں زیادہ ان نہ ہوتا تو زندگی سے اس طرح نہ جاتا۔ اس کی روحانیت پر دو رائے نہیں ہے۔
انڈیا میں ایک اس سے ہی ملتا جلتا کردار رہا ہے۔ اسے انڈین راسپوٹین کہا جاتا ہے۔ یہ دھریندر برہم چاری ہے۔برہمچاری اندراگاندھی کے بہت ہی قریب ہوگیا تھا۔اس نے یوگا گرو ہونے کے ناطے قربت حاصل کی۔ اس کے پاس بے انت دولت تھی۔ گاڑیاں چھوڑیں، کئی جیٹ جہازوں کا مالک تھا۔جنبشِ ابرو سے وزراء تک کے محکمے تبدیل کرا دیتا۔اندرا گاندھی کے وزیر اندرکمار گجرال کی آشرم کے لیے جگہ نہ دینے پر وزارت تبدیل کرادی۔ گجرال کہتے ہیں کہ میں نے اندرا گاندھی کو برہمچاری کے مطالبے اور دھمکی سے آگاہ کیا تھالیکن انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔برہمچاری نے کبھی گرم کپڑے نہیں پہنے تھے، وہ ہمیشہ باریک کپڑے کے لباس میں ہی رہتے۔نہرو کے دور حکومت میں ہی سیاست میں ان کا عمل دخل شروع ہو گیا تھا جو اندرا گاندھی کے دور میں بہت زیادہ بڑھ گیا۔ پہلے پہل راجیو گاندھی نے بھی ان کو بڑی قربت اور پذیرائی بخشی لیکن اندرا گاندھی کے آخری دنوں میں وہ ان سے بدظن ہو چکا تھا۔ راجیو گاندھی نے ان کو اندرا گاندھی کی آخری رسوم میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی تا ہم جب خود راجیو گاندھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر مارے گئے تو ان کی آخری رسوم میں برہمچاری آگے آگے تھا۔ اس کی موت اپنے ہی جہاز میں اس وقت ہوئی جب خراب موسم کی وجہ سے پائلٹ نے جہاز اڑانے سے گریز کیا لیکن ان کے اصرار پر جہاز اڑایا گیا اور وہ کریش ہو گیا۔کیتھرین فرینک اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ برہمچاری واحد آدمی تھے جو یوگا سکھانے کے بہانے اندرا گاندھی کے بیڈ روم میں داخل ہو سکتے تھے۔ اسی بنا پر اندراگاندھی سے قربت کی وجہ سے انہیں انڈیا کا راسپوٹین کہا جانے لگا۔
روسی اور انڈین راسپورٹین سے تھوڑا ملتا جلتا کردار بھارت میں گرمیت رام رحیم سنگھ بھی ہوا ہے۔ اس کا سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں میں زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا۔ اس کا تعلق سکھ مذہب سے ہے۔اس نے سچا سودا فرقہ تخلیق کیا۔ اس نے ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنا نام ہی گرمیت سے رام رحیم سنگھ رکھ لیا بالکل جلیاں والا باغ کا بدلہ لینے والے محمد رام سنگھ کی طرح۔ گرمیت نے فلم بنائی مسینجر آف گاڈ’’پیغمبرِ خدا‘‘۔ اس کا یہ خود ہیرو بنا۔ خود ہدایت کار، خود فلم ساز، خود نغمہ نگار۔ حقیقی زندگی میں بھی خود کو پیغمبر خدا ہی باور کراتارہا ہے۔ اس کو اپنے ملازم اور ایک تنقید کرنے والے شخص کے قتل میں عمر قید جبکہ اپنی ہی دو پیرو کار لڑکیوں سے زیادتی پر دس دس سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ اس کا سیاست میں زیادہ عمل دخل نہیں ہے مگر اتنا بھی کم نہیں۔ اس کی آئے روز پیرول پر رہائی ہو جاتی ہے جس دوران وہ اپنے پیرو کاروں سے ملتے ہیں۔ جن کی تعداد مبالغہ آرائی کی حد تک ان کی طرف سے 5کروڑ بتائی جاتی ہے۔ جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ برہم چاری کی طرح گرمیت کے پاس بھی دولت کی ریل پیل ہے۔
اب آتے ہیں پاکستانی راسپوٹنیوں کی طرف: کہنے اور الزام کی حد تک پاکستان کی سیاست میں کسی کو کچھ بھی کہا جا سکتا اور کہا جاتا ہے مگر ایک بھی ایسا کردار پاکستان کی سیاست میں نظر نہیں آتا جسے راسپوٹین کہا جا سکے۔ جن راسپوٹنیوں کاذکر کیا ہے ،وہ روحانیت کو اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنے ذاتی، مفاداتی اورشیطانی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ہمارے ہاں بھی اقتدار کے ایوانوں کے اندر اور باہر سیاسی معاملات میں روحانی لوگوں کا عمل دخل رہا ہے مگر کہیں ان کا ایسا کردار نظر نہیں آتا کہ ان کو راسپوٹین کے قریب بھی قرار دیا جا سکے۔
میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بابا دھنّکا کے پاس فیض کے لیے جاتے رہے۔ زرداری صاحب کے معاملات کو پھونکیں مارنے والے اعجاز سائیں سیدھا کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ عمران خان کو میاں بشیر اور بابا چالاکی روحانیت پر اعتبار اور اب بشریٰ بی بی کی روحانیت پر اعتقاد ہے۔ میاں نواز شریف نے صوفی برکت علی لدھیانوی سے بھی شروع میں روحانی فیض حاصل کیا۔ روحانیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ روحانیت کی آڑ میں فراڈ کرنے والے بھی اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ان کی کیا پہچان ہے؟ بڑی آسان ہے۔ دیکھیں، جانچیں، پرکھیں اور پھر پوچھیں۔ کس سے۔؟ اپنے دل سے۔