آرمی چیف نے فارمرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پرمایوسی‘ افراتفری کا ماحول پیدا کرکے جھوٹی خبروں کے ذریعے تاثر دیا جارہا ہے جیسے ریاست اپنا وجود کھورہی ہے۔ ہم قوم سے ملک کر ہر قسم کی مافیا کی سرکوبی کریں گے اور مایوسی پھیلانے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کلمہ کے نام پر دو ہی ریاستیں قائم ہوئیں ‘ ریاست طیبہ اور پاکستان۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ رب کریم کی مصلحت ہے۔زراعت نچلی سطح پر سماجی واقتصادی ترقی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم نے قائداعظم کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے اصول کو بھلادیا جس کے باعث تنزلی کا شکار ہوئے۔ ہم نے سب سے پہلے زراعت پر کام کرنا ہے اسی مقصد کے تحت گرین انیشیٹو کے نام سے باقاعدہ منظم منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس سے کسانوں اور عوام کی خدمت کی جائے گی اور زراعت کو زیادہ سے زیادہ مراعات و سہولیات دے کر زرعی انقلاب کے ذریعے ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ زراعت اور مویشی بانی تقریباً ہر نبی کا پیشہ رہا ہے کیونکہ اس میں ڈسپلن‘ تکلیف‘ نمو اور صبر شامل ہیں‘ جن کے نتیجے میں بے تحاشہ انعامات ملتے ہیں۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ پاکستان کے پاس گلیشیئر‘ دریا‘ پہاڑاور زرخیز زمین ہے۔ جس سے دنیا کا بہترین چاول‘ کینو اور آم جیسے پھل‘ گرینائٹ‘ سونا اور تانبے جیسے خزانے موجود ہیں۔ گرین پاکستان انیشیٹیو کی آمدن کا بڑا حصہ صوبوں کو جائے گاجبکہ باقی حصہ کسانوں اور زرعی ریسرچ کے لئے رکھا جائے گا۔ فوج کا اس میں کردار صرف عوام اور کسان کی خدمت کے لئے ہے۔ تمام اضلاع میں زرعی مالزکا انعقاد کیا جائے گاجہاں کسانوں کو ہر طرح کی سہولیات میسر ہوں گی۔ آسان زرعی قرضوں‘ کولڈ اسٹوریج کی چین‘ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ بیج اور جینیٹکلی انجنیئرڈ لائیو اسٹک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
آرمی چیف نے کہا کہ کسان ہمارے زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ کسانوں کی انتھک محنت‘ لگن اور عزم کے باعث ہی ملک کو غذائی تحفظ ملتا ہے پوری قوم کو کسانوں پر فخر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور اور پانی کی کمی ایسی حقیقتیں ہیں جو پاکستان کے غذائی تحفظ کے لئے چیلنج ہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور حکومت و عوام میں قریبی تعاون کی ضرورت ہے جیسا کہ ایس آئی ایف سی کے تحت کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بے پناہ صلاحیتوں اور وسائل سے مالا مال ہے۔ ہم مل کر اﷲ کے فضل و کرم سے اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے اور ہر شعبے میں اپنے اہداف حاصل کریں گے۔ ایس آئی ایف سی کے تمام اقدامات سے پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ ہر متحداور پرعزم قوم کے طور پر پاکستان کو ایک ترقی پسند اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جائیں گے۔آرمی چیف کے خطاب کے دوران پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگتے رہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خطاب میں اﷲ پر ان کے ذاتی بھروسے اور صبر و تحمل سے مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے موثر حکمت عملی کے تحت ملک کو آگے لے کر جانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور جب تک کسان کو زیادہ سے زیادہ مراعات و سہولیات فراہم کرکے مافیاز سے نجات نہیں مل جاتی اس وقت تک زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کرے گا اور ملک خوراک میں خودکفالت کے حصول کی منازل طے نہیں کرسکے گا۔ اسی لئے کسان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی‘ تربیت اور جدید ٹیکنالوجی کی آسان ترین شرائط پر فراہمی سے ہی زرعی انقلاب آسکتا ہے۔ دوسری طرف شوگر ملز مافیا سمیت دیگر مافیاز کو لگام دینا بھی ضروری ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت سے قبل پاکستان کبھی بھی خوراک میں خودکفیل نہیں ہوا تھا۔ جنرل مشرف نے اسلام آباد میں کسان کانفرنس طلب کرکے کسانوں کے مطالبات غور سے سنے جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر کسانوں کے مطالبات تسلیم کرلئے جائیں تو وہ پہاڑوں پر بھی گندم کاشت کرکے سبز انقلاب برپا کردیں گے۔ جنرل مشرف نے کسانوں کے تمام مطالبات تسلیم کرکے گنے‘ گندم اور کپاس کی سرکاری قیمت میں زبردست اضافہ کردیا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان خوراک میں نہ صرف خودکفیل ہوا بلکہ پاکستان نے گندم برآمد بھی کی۔سیاستدان تو گندم درآمد کرنے میں اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ خریداری سے لیکر ہر ہر مرحلے پر کمیشن ملتی ہے۔ زراعت کے لئے فلیٹ ریٹ پر ٹیوب ویلوں کو بجلی فراہم کی گئی‘ سرکاری مناسب ترین ریٹ پر ساری فصل کی خرید کو یقینی بنایا گیا‘ سال میں دو مرتبہ ملک بھر میں بھل صفائی کی گئی تاکہ نہروں کے ٹیل تک پانی کی فراہمی یقینی رہے۔ کسانوں کو کھاد‘ بیج ‘ زرعی ادویات اور زرعی آلات کی آسان ترین شرائط پر فراہمی یقینی بنائی گئی۔ وہ زراعت کے حوالے سے ایسا سنہری دور تھا کہ کسان خوشحال تھا اور شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی کی شرح میں زبردست کمی آئی تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں مارک اپ کی شرح 4%پر آگئی تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب ڈالر تھے۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے ملک کی جان چھڑادی تھی۔ سیاستدانوں میں اتنی جرات کیوں نہیں آتی کہ وہ مشرف دور کے اچھے کاموں کا اعتراف کرسکیں؟
اب چین کی مدد سے زرعی شعبے کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کرکے خوراک کی پیداوار اور پھر جدید ترین طریقوںسے محفوظ بناکر تیز ترین طریقے سے عالمی منڈی تک رسائل کو ممکن بنانے کے لئے جامع منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز ہوچکا ہے جس میں پاکستان کی مسلح افواج بھی کسان اور عوام کی مدد کے لئے برسرپیکار ہیں اور ابتدائی طور پر مخصوص علاقوں میں چاول کی جدید ترین طریقے سے کاشت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس منصوبے سے مستقبل قریب میں کسان کا معیار زندگی بلند ہوگا اور ملک کو خوراک میں خودکفالت حاصل ہوسکے گی۔
حکومت کو چاہئے کہ گنے‘ گندم اور کپاس کی سرکاری قیمتوں میں مناسب ترین اضافہ کرکے مافیاز کے چنگل سے کسان کو نکالنے کے لئے موثر اقدامات کرے تاکہ کسان کے حوصلے بلند ہوں او ر وہ ایک بار پھر دن رات ایک کرکے اپنی زمینوں پر کام کرے اور ایک طرف کسان کو معاشی خوشحالی نصیب ہو تو دوسری طرف ملک خوراک میں ایک با رپھر خودکفالت حاصل کرسکے۔ فصل کی فروخت کے وقت کسان کو مڈل مین سے نجات دلائی جائے اور کسان کو فصل کا پورا ریٹ ملنا چاہئے۔ اس کے علاوہ زراعت کے لئے بنیادی ضرورت وافر پانی کی فراہمی کے لئے بھی قومی اتفاق رائے سے تیز ترین پیشرفت کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے سندھ میں 4چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ سال بھر کی ضرورت کا پانی سندھ کے ڈیموں میں موجود ہو‘ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ تعداد میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ اگر ملکی معاشی حالات کے باعث کسی طرح کی مشکلات ہیں تو آبی وسائل سے استفادے کے لئے B.O.Tکی بنیاد پر عالمی سرمایہ کاری کے ذریعے ان منصوبوں پر کام کا فوری آغاز کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آرمی چیف کی طرح ہر ذمہ دار ملکی شخصیت میں خلوص نیت اور جذبہ ایمانی موجود ہو تو پاکستان بہت مختصر وقت میں ہی زرعی انقلاب لاکر معاشی طور پر مضبوط ملک بن سکتا ہے۔