اللہ تعالی سورۃ الحجر میں ارشاد فرماتا ہے ’’ بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘ ۔سورۃ المزمل میں ارشاد باری تعالی ہے :’’ اور قرآن مجید کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاجب بھی کچھ لوگ اللہ تعالی کے مبارک گھر میں جمع ہوتے ہیں، تلاوت قرآن مجیدکرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، اللہ کے فرشتے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اور اللہ تعالی ان کا تذکرہ اپنے پاس والوں میںکرتا ہے ۔ (مسلم شریف)
رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا۔قرآن پاک میں مہارت رکھنے والا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نیکوکار ، معزز اور پرہیز گار فرشتوں کے ساتھ ہو گا ۔ اور ایسا شخص جو تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے اٹھتا ہے اور تلاوت کرنے میں اس کو دشواری آتی ہے تو اس کے لیے دو اجر ہیں ۔ ( بخاری ، مسلم )
قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔ تلاوت قرآن مجید کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ایک قاری قرآن پر سب سے پہلے جو چیز لازم ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت میں خلوص نیت ضروری ہے ، اور یہ کہ تلاوت قرآن مجید صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی خوشنودی اور تقرب کا حصول مد نظر نہیں ہو نا چاہیے ۔ ( الاذکار)
کوئی شخص تلاوت قرآن مجید صرف اس لیے کر ے کہ لوگ اس کی میٹھی زبان سے محظوظ ہوں ، اس کی طرف دیکھیں،اس کی مجلس میں آئیں اور اس کی تعریف کریں تو ایسا شخص تلاوت قرآن مجید کے اجر سے محروم رہے گا۔قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا بھی اس کے آداب میں شامل ہے ۔ قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے اس کو حلا ل جانیں اور جس کو حرام قرار دیا ہے اس کو حرام جانیں۔اور جن کاموں سے روکا ہے اس سے رک جائیں اور جن اعمال کو بجا لانے کا کہا ہے ان اعمال کو مکمل احترام کے ساتھ ادا کیا جائے ۔قرآن مجید کو حفظ کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔ لیکن قابل توجہ اور اہم بات یہ ہے کہ صرف زبانی یاد کر لینا کافی نہیںبلکہ اسے زندگی بھر یاد رکھنا اس سے بھی بڑی ذمہ داری ہے۔