اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے کی پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف سیکرٹری، ایڈووکیٹ جنرل اور آئی جی پنجاب کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیا ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا 22 دسمبر سے سخت کوئی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، عدالتیں جمہوریت اورعام انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کی لیول پلینگ فلیڈ نا ملنے کی درخواست پر سماعت کی کی۔سماعت کے آغاز میں وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ اور کہا کہ شعیب شاہین آپ روسٹرم پر آجائیں یہ آپ کی درخواست تھی۔کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آ ئی وکیل لطیف کھوسہ کے ساتھ سردار کا نام ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ سرداری نظام ختم ہو چکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ آپ کی حکومت نے ہی سرداری نظام ختم کرنے کا قانون بنایا، اب تو آپ کے بیٹے بھی سردار ہو گئے ہیں جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ یہ اسٹینو نے نام کے ساتھ لکھ دیا۔ آئندہ احتیاط کروں گا۔لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا، جس پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ کوئی نئی پٹیشن نہیں ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جو توہین کی وہ بتائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا ، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟ اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجئے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں، ہر کوئی یہاں آ کر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ائپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں ، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائر کریں ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا بات ختم۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی ، اپیل کہاں کریں ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آراو کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹریبونل میں درخواست دیں ، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنیں بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں ،فلاں کے مسترد؟، آپ بتائیں ہم کیا آرڈر پاس کریں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں، آپ ٹریبونل میں اپیلیں دائر کریں اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کھوسہ صاحب ٹریبونل جائیں پھر یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی جس پر چیف جسٹس بولے کہ پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم روز آپ کیلئے نہیں بیٹھ سکتے ، آپ کو عملدرآمد رپورٹ مل گئی اس پر جواب دے دیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں زیادہ وقت آپ کا ضائع نہیں کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ وقت ضائع کریں ہم رات تک بیٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو آپ کے تحفظات دور کرنے کا آرڈر جاری کیا، 26 دسمبر کے بعد کہاں کیا ہوا وہ بتائیں ، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میڈیا میں سب کچھ آچکا ہے دنیا نے سب کچھ دیکھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تو میڈیا دیکھتا ہی نہیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں آپ بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013 کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے ، عدالت نے تب بھی وقت ضائع کیا، کوئی ٹھوس الزام نہ نکلا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22دسمبر سے سخت کوئی اورآرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کے بعد الیکشن کمیشن کو کوئی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ کیا آپ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہے ہیں جس پر ڈی جی لاء نے جواب دیا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اْٹھا لیا جاتا ہے، اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے صرف پنجاب کا مسئلہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیاآپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے نہیں ان کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر تے ہوئے جواب طلب کر لیا۔دوسری جانب عدالتی کارروائی سے قبل پی ٹی ائئی وکلاء نے اضافی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے 668 اہم رہنماوئں کے کاغذات مسترد ہوئے، 2000 کے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز رہنماوئں کے کاغذات نامزدگی کو بھی مسترد کیا گیا۔ کاغذات نامزدگی چھیننے کے 56 واقعات پیش آئے جبکہ تجویز کنندہ اور تائید کنندگان کو بھی گرفتار کیا گیا اور اس حوالے سے ویڈیو ثبوت بھی موجود ہیں۔