ورلڈ بنک کا بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز فراہم کرنے سے انکار سادگی اور ایثار سے خودانحصاری کی منزل حاصل کی جائے

Jul 04, 2010

سفیر یاؤ جنگ
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں واپڈا حکام نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی اعتراض پر ورلڈ بینک نے گلگت، بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے قرضہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین احمد خان بگٹی کی زیر صدارت ہوا، واپڈا کے ممبر واٹر سید راغب عباس شاہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر پر 9 کھرب روپے خرچ ہونگے۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر دار و مدار زراعت پر ہی ہے تاہم ملک بھر میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا بھی جال بچھ چکا ہے۔ زراعت کے لئے پانی اور صنعتوں کے لئے بجلی ناگزیر ہے۔ آج پانی اور بجلی دونوں کی قلت ہے۔ جس کی بڑی وجہ پاکستان میں ڈیموں کی کمی اورمتعدد مجوزہ ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر ہے۔ جو ڈیم موجود ہیں ان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کے باعث جہاں لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں وہیں تربیلا اور منگلا میں بھی پانی کی شدید کمی ہو گئی ہے۔ جس کا اثر فصلوں کے لئے پانی اور بجلی کی پیداوار کی کمی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس متبادل ذرائع کا ہونا ضروری ہے۔ متبادل کے طور پر ہمارے پاس کالاباغ اور دیامیر بھاشا ڈیم کے منصوبے موجود ہیں۔ کالاباغ ڈیم کو سیاسی ایشو بنا کر اس منصوبے کو سرے سے ختم کر دیا گیا اور بھاشا ڈیم حکومتوں کی غفلت کا شکار ہو گیا اب جبکہ حکومت بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کچھ سرگرم ہوئی تو ورلڈ بنک کو اس کی سائٹ گلگت بلتستان متنازعہ دکھائی دینے لگی۔ دوسری طرف اس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے تعمیر ہونے والے 62 ڈیمز سے صرف نظر کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی گلگت بلتستان سے کہیں زیادہ متنازعہ علاقہ ہے۔ عالمی برادری نے بھی اسے متنازعہ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یو این کی قراردادیں ہیں جن کے مطابق متنازعہ وادی کے باشندوں کو حق دیا گیا ہے کہ وہ رائے شماری سے اپنی قسمت کا فیصلہ کریں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اس متنازعہ علاقے میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے ورلڈبنک بھارت سے تعاون کر رہا ہے۔ بگلیہار کا معاملہ ورلڈ بنک کے پاس گیا تو اس نے فیصلہ بھارت کے حق میں دیدیا گو یہ پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے نام نہاد ماہرین کی نااہلی کی وجہ سے ہوا تاہم ورلڈ بنک کو اس وقت بھی متنازعہ علاقے میں تعمیر کئے گئے منصوبے کی نشاندہی کرنا چاہئے تھی۔ مغرب کے خبثِ باطن کی طرح ورلڈ بنک کا بھی یہ دہرا معیار ہے کہ پاکستان کے مفاد کے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اگر طویل مدت کے بعد پاکستان نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا قصدکر ہی لیاتو ورلڈ بنک نے قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔
آج وطن عزیز میں غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچوں سمیت اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں دوسری طرف حکمرانوں کی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ سے نظر آتا ہے کہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں‘دنیا کی ہر نعمت ان کو ودیعت کر دی گئی ہے۔
بجٹ میں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں کروڑوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ بیرونی دوروں کی رقم بڑھا دی گئی تحفے تحائف دینے اور تفریح کے لئے 2 کروڑ 80 لاکھ کو کم قرار دیکر تین کروڑ کر دیا گیا۔ صوبوں میں 80، 80 ٹاسک فورسز، مرکز میں 100 کے قریب وزرا، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کی تعداد ہزار کے اوپر ہے‘ ان کی تنخواہوں اور مراعات کا اندازہ لگائیں جو اربوں روپے سالانہ بنتی ہیں پھر ان کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر دی گئی رقوم کا کوئی حساب کتاب نہیں اوپر سے ہر ادارے اور ہر محکمے میں کرپشن نوازشریف نے 300 ارب روپے کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اپنی وزارت کے دور میں کہہ چکے ہیں کہ صرف ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ آج حکمران، سیاست دان، بیورو کریٹس خود اور ان کی اولادیں بھی کمائی کے چکر میں ہیں۔ زمینوں پر قبضوں، کمشن اور کک بیکس کی ہر روز ایک نئی کہانی میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہے۔ جب اوپر کی سطح تک معاملات بگڑے ہونگے تو یہ بگاڑ نچلی اور عوامی سطح پر بھی سرایت کریگا۔ آج ضرورت ان خرافات اور خرابات سے جان چھڑانے کی ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ آغاز اوپر کی سطح سے ہو۔ ہر معاملے میں سادگی اپنائی جائے۔ بڑے لوگ بڑی، بلٹ پروف اور بے شمار گاڑیوں کی ضد چھوڑیں۔ محمد خان جونیجو نے صدر تک کو سوزوکی میں بٹھا دیا تھا آج اسی کلچر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہر ادارہ محکمہ شعبہ اور اس کے ذمہ دار رضاکارانہ طور پر اخراجات کم کر دیں۔ دوروں پر جانا ناگزیر ہو تو صرف متعلقہ لوگوں کی مختصر جماعت کو ساتھ لے کر جائیں۔ ’’ جما جنج نال‘‘ کے ساتھ ہونگے تو اخراجات کا بوجھ ناتواں قومی خزانے پر پڑیگا۔ آج ملک 80 ارب ڈالر کا مقروض ہے اس قرض پر سود کی مد میں ہر سال 6 ارب روپے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ سادگی اور ایثار کا مظاہرہ کر کے نہ صرف قوم قرض سے جان چھڑا سکتی ہے بلکہ خودانحصاری کی منزل بھی حاصل کر سکتی ہے۔
ورلڈبنک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے قرض دینے سے انکار کیا ہے، لعنت بھیجیں ورلڈ بنک دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور ان کے قرض پر اپنے وسائل سے بھاشا ڈیم تعمیر کریں۔ آج پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں۔ کیا ان سے غربت اور بیروزگاری دور کی جا رہی ہے؟ اس رقم سے بھاشا ڈیم تعمیر کریں۔ حکمران خودداری کا مظاہرے کریں تو قوم کو اپنے سے چند قدم آگے پائیں گے۔ تمام مصلحتیں چھوڑیں۔ ملکی و قومی مفاد کی بات کریں۔ کالاباغ ڈیم بہترین قومی مفاد میں ہے۔ اس کی تعمیر شروع کریں۔ یہ جلد تعمیر ہو سکتا ہے اس پر لاگت بھی کم آئیگی۔ جہاں پاکستان کی طرف خودداری اور خودمختاری کا اظہار ہو گا‘ وہیں پاکستان میں پانی اور بجلی کی بھی کمی دور ہو جائے گی۔
مسلم لیگ کا اتحاد ہی
مسلم لیگ کی جیت ہو گی
مسلم لیگ (ضیاء الحق) کے سربراہ اعجازالحق اور سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے درمیان مسلم لیگ کو متحد کرنے کے سلسلہ میں ٹیلی فون پر تبادلۂ خیال ہوا ہے‘ اعجازالحق نے میرظفراللہ جمالی کو دعوت دی کہ وہ دو روز بعد میاں خورشید محمود قصوری کی رہائش گاہ پر تین مسلم لیگی دھڑوں کی مشترکہ رابطہ کمیٹی کے ہونیوالے اجلاس میں شرکت کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلہ میں میاں نواز شریف سے بھی بات چیت کی جائیگی تاکہ وہ بھی اس کارخیر میں شامل ہو سکیں۔
مسلم لیگوں کا اتحاد اگر ہو جائے تو یقیناً یہ ایک کارخیر ہی ہو گا‘ اچھی اور منظم سیاسی جماعت اس ملک کے عوام کے مفادات کی سب سے بہتر محافظ ثابت ہو سکتی ہے۔ آج بھی اگر مسلم لیگی لیڈر اپنے اپنے ذاتی اور شخصی مفادات سے بالاتر ہو کر غور و فکر کریں تو پاکستان میں متحدہ مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلم لیگ کا مستقبل روشن ترین نظر آرہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں اب بھی مسلم لیگ کی ہی اکثریت بن جاتی ہے۔ مسلم لیگی لیڈروں کو یہ بات کون سمجھائے کہ شخصی لیڈر شپ اور ذاتی مفادات کو اتنی زیادہ اہمیت نہ دی جائے کہ پاکستان کی بانی جماعت کو ہی تقسیم در تقسیم کرکے رسوا کیا جائے۔ لیڈر صاحبان اسے قائداعظمؒ کی مسلم لیگ سمجھ کر اسکے اتحاد کیلئے آگے بڑھیں۔ ملک میں جمہوری عمل جاری ہے‘ عوام عملاً دو پارٹی سسٹم کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں‘ مسلم لیگ اگر ایک ہو جائے تو ملک کی باقی سیاسی جماعتیں بھی شاید ہم خیال گروپس کی صورت میں اکٹھی ہو جائیں۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو عوامی مقبولیت‘ عوام کی خدمت اور ہر دور میں بہتر سے بہتر منشور کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ مسلم لیگوں کو ذاتی ملکیت میں رکھنے کے بجائے‘ بابائے قوم کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اسے عوام کی جماعت بننے دیں۔ عوامی مقبولیت‘ سیاسی پارٹیوں کی سربراہی کے بجائے عوام کی خدمت اور سیاسی پالیسیوں پر ہی ہوتی ہے۔ جن کو عوام منتخب کریں‘ وہی عوامی لیڈر ہوتے ہیں۔ مسلم لیگی لیڈر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور مسلم لیگوں کے اتحاد کی طرف بڑھیں۔
عدلیہ کا احترام‘ عملی مظاہرہ بھی کریں
صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کی طرف سے دی گئی بریفنگ کے موقع پر کہا کہ پیپلز پارٹی عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور اداروں میں ٹکرائو نہیں چاہتے‘ عدلیہ کی بحالی کیلئے پیپلز پارٹی کی قربانیاں کسی دوسری جماعت سے کم نہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے ملک کے تمام اداروں کو بھی ہدایت کی ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے اگرچہ صدر نے عدلیہ کے احترام کی یقین دہانی کرائی ہے‘ مگر اسکے ساتھ ساتھ وزیر قانون کی طرف سے چنیدہ بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلوں کو وہ خصوصی عطیات سے نواز بھی رہے ہیں۔ بار کونسلوں اور بار ایسوسی ایشنوں کو گرانٹس دینا اگرچہ ہمارے ملک میں ایک پرانی روایت ہے‘ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وکلاء کی تنظیمیں پیشہ ور ماہرین کی تنظیمیں ہیں‘ کیا یورپ اور امریکہ میں ایسی تنظیموں کو عطیات اور گرانٹس دی جاتی ہیں؟ اور بھارت میں اس کیلئے کیا روایت ہے؟
بادی النظرمیں یہ پیشہ ور تنظیمیں ہیں‘ ان کے معاملات میں حکومت کو دخل ہی نہیں دینا چاہیے‘ یہ اپنے تمام معاملات میں آزاد رہیں تو زیادہ بہتر ہو گا بلکہ جن وکلاء کو سرکاری مقدمات کیلئے منتخب کیا جاتا ہے‘ اس کا فیصلہ بھی بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنوں کے ذریعہ کیا جائے اور وکلاء کو فیس کی ادائیگی بھی ان اداروں کے ذریعہ ہی کی جائے۔ اس طرح گرانٹ اور عطیات بتاشوں اور چھوہاروں کی طرح تقسیم کرنے کے بجائے‘ صرف ان تنظیموں کو دی جائے جو اپنے اجلاسوں میں اہم ضروریات کیلئے اس کا مطالبہ کریں۔ اس سے بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنوں کا کردار زیادہ موثر اور باوقار ہو سکے گا۔ پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں عدلیہ کا احترام کرنے کا بار بار صرف اظہار کرنے کے بجائے عملاً اس کا مظاہرہ بھی کریں۔ جمہوریت کا نظام اگر چلانا ہے تو ملک کے تمام آئینی اداروں کا احترام کرنا ہو گا اور یہ عوام کو بھی نظر آنا چاہیے۔
نیٹو، نیشنل ہائی وے کا
نقصان پورا کرے
پاکستان نیٹو سے افغانستان میں سامان کی سپلائی کیلئے اپنی سڑکیں استعمال کرنے پر پانچ کروڑ اسی لاکھ ڈالر کا مطالبہ کریگا 7 سالوں کے دوران پاکستان کو نیٹو کے سپلائی ٹرکوں کے ذریعے نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کو سالانہ 8 کروڑ 3 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
دہشت گردی کی عالمی جنگ میں جس دن سے پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے، اسی دن سے پاکستان خودکش حملوں‘ دھماکوں اور قتل و غارت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اب عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے بنائے گئے عوامی فلاح و بہبود کے ذرائع آمدورفت کا نیٹو کے سامان کی ترسیل کے باعث جو نقصان ہو رہا ہے یہ عوام پر ظلم ہے۔ اس سے بڑھ کر حکومت نیٹو کو کم نرخوں پر جو پٹرولیم مصنوعات بیچتی ہے، یہ بھی عجیب منطق ہے عوام الناس کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھاری جرمانے عائد کر دئیے جاتے ہیں جبکہ نیٹو ٹرکوں کو اوور لوڈنگ پر جرمانہ بھی نہیں کیا جاتا، حکومت دوہرا معیار کب تک اپناتی رہے گی۔ وہ عوام سے زیادہ نیٹو کی خیر خواہ لگتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے، عوام کو اسکے حقوق کیوں نہیں دئیے جاتے۔ نیٹو اور ایساف کو سپلائی کے دوران نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کا جو نقصان ہے اسکو پورا کیا جائے۔ اگر مرمت کی ذمہ داری نہیں لیتے تو نیٹو کو پاکستان کے راستے سے سپلائی بند کی جائے بہتر ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے، کیونکہ ہمارا ملک جنگ کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
مزیدخبریں