”پاک چین سفارتی تعلقات کے 60 سال“ کی کامیاب تکمیل

اکرم ذکی
ادھر امریکی صدر نکسن پریشان تھے کہ ویت نام کی جنگ کو کیسے بند کریں۔ اس وقت 1971ءمیں دونوں ملکوں کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے چین اور امریکہ کا راستہ کھولا۔ ہنری کسنجرکو خفیہ طور پر چین بھیجا اور اسکے بعد 1972ءمیں امریکی صدر نکسن کا وزٹ ہوا۔ ہنری کسنجر کو بھیجنے سے ہم نے جو راستہ کھولا تو روس اس بات پر کہ ہم امریکہ اور چین کو ملا رہے ہیں ہمارے اور چین کے اتنا خلاف ہوا کہ اس نے ہندوستان کےساتھ دفاعی معاہدہ کر کے اس کو بنگال پر حملہ کرنے کےلئے پوری مدد فراہم کی۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ روس کےساتھ اس بات کی ہم نے قیمت ادا کی۔ اس ملاقات کی ایک خاص بات یہ بتاﺅں کہ جب فروری 1972ءمیں رچرڈ نکسن چین چلا گیا تو وہاں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں چین نے یہ لکھوایا کہ پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کاز کےلئے بات کی جائے۔ ہم نے بھی چین کی مدد کی کیونکہ جب ہم نے چین کی امریکہ کے ساتھ تھوڑی تھوڑی ملاقات کروا لی تو ہم نے امریکہ کو سمجھایا کہ یہ جو تم ہر سال ان کو اقوام متحدہ نہیں جانے دیتے اسے بند کرو۔ لہٰذا 1971ءمیں تائیوان کو نکال کر چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے میں بھی ہم نے چین کی مدد کی۔ اس طرح دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے حق میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا اور یہ رشتہ پروان چڑھتا رہا۔ چین کو جب ضرورت تھی اس نے روس سے بچنے کےلئے امریکہ کے ساتھ راستہ کھولا اور جب یہ دونوں ایک طرح سے اکٹھے ہو گئے تو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب روس افغانستان آیا اور ہمارے لئے بہت خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس وقت چین اور امریکہ نے ہماری مدد کی۔ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کے مسائل کافی کم ہو گئے کیونکہ دنیا کی تین میں سے دو بڑی طاقتیں ہمارا ساتھ دے رہی تھیں اور ہماری دونوں کے ساتھ دوستی میں کوئی تصادم نہیں آتا تھا۔ لیکن روس کی شکست کے بعد مسائل پیدا ہوئے۔ تاہم اس دوران چند باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 1970ءکی دہائی میں چین نے ہماری خودکفالت کی طرف مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمیں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دیے۔ ہیوی مکینیکلکمپلیکس فوجی فاﺅنڈری، مشین ٹول فیکٹری، پائپ لائن، پاور پلانٹس سمیت مختلف اقسام کے تیس پروجیکٹس لگائے۔ یہ رشتہ چلتا رہا اور اس میں سب سے بڑے جو کام تھے جو 1970ءکی دہائی میں شروع ہوئے اور 1980ءکی دہائی میں مکمل ہوئے وہ قراقرم ہائی وے ہے۔ یہ جو نعرہ ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بلند ہے وہ اسلئے ہے کہ ہم نے پہاڑوں سے اترنے کا راستہ بھی بنا لیا ہے اور سمندر سے گہری اسلئے ہے کہ انہوں نے ہمیں آبدوز بھی دی ہے۔ یہ ایسے ہی باتیں نہیں بنی ہوئی ہیں۔ شہد سے میٹھی یہ اسلئے ہے کہ یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہمیں لگنے لگی ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سے پروجیکٹس یہاں مکمل کئے۔ صنعتی میدان میں یہاں ترقی ہوتی رہی۔ 1990ءکی دہائی میں پہلا نیوکلیئر پلانٹ لگایا۔ پھر دوسرا لگایا جو اب مکمل ہونے کو ہے تو اس طرح وہ ہماری تعمیر میں شامل ہو گئے۔ ہمارے دوسرے دوست جو ہم پر احسان کرتے ہیں ان کی اسطرح کی دکھانے کی کوئی چیز نہیں ہے، پتہ نہیں ان کی امداد کہاں گئی۔ پاک چین دوستی وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی اور روس جب ختم ہو گیا تو افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے لئے ایک نیا تصور بنا لیا کہ اب ہم تنہا سپرپاور ہیں اور ہم دنیا کا نقشہ جس طرح چاہیں بدل دیں۔ چین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور کہاں کہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایک سپرپاور ہے لیکن بہت سی گریٹ پاورز بھی ہیں اور ایک ایسے نظام کی طرف ارتقاءہو رہا ہے جس میں بہت سی گریٹ پاورز ہوں گی۔ 2020ءتک 6مختلف پاورز کا سٹرکچر ہو گا جن کی قوت تقریباً برابر ہو گی۔ انہوں نے طاقت کا ایک نیا تصور دیا کہ طاقت صرف عسکری قوت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسکے ساتھ سیاسی و اقتصادی طاقت بھی ہے جبکہ اس ملک کے عوام میں پذیرائی بھی ایک طاقت ہے۔ ایک ملک کی صحیح طاقت ان سب چیزوں کا مرکب ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے چین نے دو فلسفے ایجاد کئے۔ ایک یہ کہ ہم پرامن طریقے سے ترقی کرینگے۔ دوسرا یہ کہ ہم ساری دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کرینگے اور لوگوں کی مشکلات کو اپنے تجربے سے کم کرنے کی کوشش کرینگے۔ اسطرح یہ دو چیزیں تھیں جن کو لےکر چین پوری دنیا میں گیا اور اندرونی طور پر 1978ءمیں فیصلہ کیا کہ اقتصادی ترقی کو ہم نے اپنا مقصد اولین بنانا، اپنے وسائل کو ترقی دینی اور کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کرتا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات حل کر لئے۔ ہندوستان کے ساتھ معاملات حل نہ ہوئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم منجمد کر دیں گے اور اس پر جنگ نہیں کرینگے۔ چین کا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا اور گذشتہ صدی کے آخر تک ہمارے تعلقات اتنے مستحکم اور پائیدار ہو گئے تھے کہ اب کوئی بڑی چیز کرنے کی ضرورت تھی اور مستقبل کا ایک نقشہ بنانا تھا۔ ہماری تجارت بہت پیچھے رہ گئی تھی اور شاید ایک بلین سے کچھ زیادہ تھی۔ اتنی دوستی اور تجارت کے باوجود ہماری تجارت صرف ایک بلین تھی۔ اس کو بڑھانے کا فیصلہ ہوا تو 2003ءمیں ایک معاہدہ ہوا کہ ہم نے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں تعاون کی نئی راہیں کھولنی ہیں اور ہمارا رشتہ Multinational اور Comprehensive ہو گا۔ یہ ہمارا وژن ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے 2005 ءمیں ایک اور معاہدے پر دستخط کئے جس کو دوستی، ہمسائیگی اور تعاون کا معاہدہ کیا گیا اور اس میں پہلی بار سٹریٹجک تعلق کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہ صدی شروع ہوتے ہی فیصلہ ہوا کہ ہر 5سال کے بعد ہم پاک چین دوستی کا سال منائیں گے۔ 2001ءمیں پچاسویں، 2005ءمیں 55ویں سالگرہ اور اب 60سالہ تعلقات کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ 2006ءمیں کئی معاہدے کئے گئے جس میں تین شعبے نمایاں تھے دفاع، انرجی اور معاشی تعاون۔ پھر ایک 5سالہ منصوبہ کا معاہدہ ہوا۔ زراعت، کمیونی کیشن، یوتھ افیئر، زبان غرضیکہ ہر چیز کے متعلق عملی تعاون کےلئے کہا گیا۔ دونوں ممالک درمیان 300 سے زائد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاہدے تو ہو جاتے ہیں لیکن ہم یہاں اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ 300معاہدوں پر اگر عملدرآمد ہو جاتے تو ہمارے ملک کا نقشہ ہی بدل جائے۔ زراعت میں عملی تعاون نہیں ہوا۔ کمیونی کیشن میں کچھ ہوا ہے۔ جب صدر زرداری پہلی مرتبہ چین گئے تو چینی وزیراعظم نے ان کو یقین دہائی کروائی کہ بہت معاہدے ہو چکے ہیں اب عملی کام بھی کرنا چاہئے۔ ایک کمیٹی بنائی گئی۔ یہ کمیٹی ان معاہدوں پر عملدرآمد کرانے کےلئے منصوبے تیار کرےگی جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھیں گے۔ کمیٹیوں نے 2سال میں 76پروجیکٹس تیار کئے اور اس وقت چین 120 پروجیکٹس پر پاکستان میں کام کر رہا ہے جبکہ تیرہ ہزار چینی انجینئرز اور ورکرز یہاں کام کر رہے ہیں۔ امریکہ یہاں ایک کیری لوگر بل لایا جس کے مطابق پاکستان کو 5سالوں میں سات بلین ڈالر ملیں گے جس میں ہر سال ڈیڑھ بلین ڈالر ملنا ہے اور اس سے آدھے ان کے اپنے انتظامی اخراجات ہونگے یعنی ہمیں چھ یا سات تو ملین ڈالر ملیں گے لیکن اس وقت تک ان کی ادائیگی بھی رکی ہوئی ہے اور اس کا بہت چرچا ہے کہ ہمیں امداد ملتی ہے۔ چین نے یہاں 20بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی ہوئی ہے۔ 2001ءمیں گوادر پورٹ اور کوسٹل ہائی وے کی بات ہوئی تھی۔ یہ دونوں منصوبے بن چکے ہیں۔ قراقرم ہائی وے کو وسیع کرنے کےلئے 500ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ یہاں پر ریلوے لائن بنانے کا منصوبہ ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ تم پروجیکٹ بتاﺅ ہم تعاون کر کے آپ کو یہ بنا کر دینگے۔ لیکن اگر نقد مانگتے ہو تو پھر خدا حافظ کیونکہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ نقد کے ساتھ کیا ہو گا۔ ابھی بھی کئی لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم چین گئے تو انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے نقد دینے سے انکار کیا ہے لیکن انہوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ ہم سے جتنی چاہیں وہ سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ 2009ءمیں امریکی صدر باراک اوبامہ چین گئے تو چینیوں نے انہیں کہا کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششیں نہ تمہارے مفاد میں ہے نہ کسی اور کے مفاد میں۔ اس موقع پر اعلامیہ میں لکھوایا گیا کہ امریکہ اور چین افغانستان اور جنوبی ایشیاءکو مستحکم کرنے کےلئے تعاون کرینگے۔ اب مستقبل کےلئے ہمارے بے شمار راستے کھلے ہیں، زرعی شعبہ میں ہم چین سے بہت سیکھ سکتے ہیں۔ چین کی آبادی دنیا کا 22فیصد ہے جبکہ ان کی زرعی زمین دنیا کا 7فیصد ہے۔ تو چینی سات فیصد زمین سے22فیصد کی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں اور اسے ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ انرجی کے شعبہ میں وہ ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ چین کی ایک بہت بڑی انرجی کمپنی نے یہاں پندرہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارے راستے کھل گئے ہیں۔ کمیونی کیشن کے شعبہ میں چین کی دو کمپنیاں آ چکی ہیں۔ اب انہوں نے اسلام آباد میں ایک خوبصورت پاک چین دوستی کلچرل سنٹر بنا لیا ہے اور اس کو آباد کرنے کےلئے ہمیں چاہئے کہ وہاں ثقافتی پروگرام باقاعدگی سے کریں۔ آپس میں وفود کا تبادلہ ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ چینی بھائی ہم سے بات کرنے کےلئے اردو سیکھتے ہیں۔ ہمارے رشتہ کی مزید مضبوطی میں زبان ایک رکاوٹ ہے۔ ہمیں اپنے سکولوں میں چینی زبان شروع کرنی چاہئے تاکہ ہمارے بچے چینی زبان سیکھیں کیونکہ ہمارا مقصد ہے کہ یہ لازوال دوستی آئندہ نسلوں تک چلے۔ وہ یہاں آئیں تو اردو بولیں ہم وہاں جائیں تو چینی بولیں۔

ای پیپر دی نیشن