دھیرے دھیرے پھر پانی پانی سے ملنے جا رہا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ ایک مرتبہ پھر بادل بادل میں مکس ہونے جا رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ بادلوں کا آپس میں یکجا ہونا سب کچھ جل تھل کر دیتا ہے۔ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ متحدہ کے استعفے قبول نہیں کریں گے۔ کراچی کی نشستوں پر الیکشن ضرور ہونگے اور متحدہ کے تحفظات دور کر دئیے جائیں گے۔ یہ وہ تحفظات ہیں جسے دور کرتے کرتے حکومت کے ساڑھے تین سال گزر گئے۔ متحدہ اور مولانا فضل الرحمن نے پوری قوم کو ایک چکر میں ڈال رکھا ہے۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کون کتنی مرتبہ حکومت سے آخری بار ناراض ہوا۔
اس مرتبہ ہم نے شکر کیا تھا کہ الطاف بھائی نے زرداری صاحب سے ملاقات بھی نہ کی تھی اور باقی روابط میں منقطع ہوتے نظر آ رہے تھے کہ ”سرگرانی اور ہے“ والا معاملہ تھا۔ اب یوں نظر آنے لگا کہ ”کچے دھاگے سے بندھے آئیں گے سرکار دے“۔ مولانا فضل الرحمن، الطاف بھائی کے مزید قریب آ گئے کہ ”اپنے اپنے بے وفاﺅں نے کیا یکجا ہمیں“ مگر اب کے بے وفا بھی ایک ہے۔ وہی بے وفا جو نوازشریف کے لئے ہرجائی بھی رہا ہے۔ بظاہر ق لیگ کی لاٹری نکل آئی تھی کہ حکومت انہی کی اکیلی رسی پر ڈول رہی تھی۔ مگر چودھری صاحب بہت دور اندیش ہیں اس لئے انہوں نے متحدہ کو منانے کی کوشش کی کہ وہ اندر کی بات جانتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی پڑھے لکھے ہیں انہوں نے پڑھ رکھا ہے کہ جھاڑی میں بیٹھے ہوئے گیارہ پرندوں کی نسبت ہاتھ میں آیا ہوا ایک پرندہ ہی بہت ہے۔ اور جب پرندہ پاﺅں کے نیچے آیا ہو تو اندھا بھی بخت کا سکندر بن جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاستدان اس حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ جو کچھ لوٹنا ہے آج ہی لوٹ لو۔ اور یہ ایسے بدبخت ہیں پھل ہی نہیں پودے بھی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ گوشت نوچنے کے بعد آنے والے کے لئے ہڈی بھی نہ چھوڑی جائے۔ انہیں اس سے کیا عوام مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمیابی کے باعث مریض بن چکے ہیں اب وہ چیخنا بھی چاہتے ہیں تو ان کے حلق خشک ہو چکے ہیں۔
لے دے کے ایک امید کی کرن چیف جسٹس کی شکل میں نظر آئی تھی مگر یہاں حکومتی کرپشن کی تیرگی بہت زوردار ہے اور اس پر امریکی دہشت گردی کی آندھی۔ الاماں الاماں۔ چیف جسٹس صاحب نے تنگ آ کر صاف صاف کہہ دیا کہ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، عدالت نے جو بھی حکم دیا اسے حکومت نے پائمال کر دیا۔ حکومت نے ایسی اندھیر نگری مچا رکھی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کا تبادلہ معطل کر کے تفتیش سونپ دی ہے۔ مگر حکومت پھر کوئی نیا پینترا بدلے گی۔ وہ کسی محب وطن اور دیانتدار افسر کو نہیں چلنے دے گی۔
اصل میں حکومت کی بنیاد ہی این آر او پر ہے۔ پانی رڑکنے سے مکھن نہیں نکل سکتا۔ برائی کی بنیاد پر اچھائی کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ ٹیڑھی اینٹ پر رکھی ہوئی دیوار تاثر یا ٹیڑھی جائے گی۔ ایسی حکومت عوام کے لئے کیا سوچے گی جس کی ساری قوت عدلیہ سے بچاﺅ، اور امریکہ کو خوش کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔ جس کا سارا دھیان اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی طرف ہے یا اپنے حلیف نوازشریف کو چکر دینے کی طرف۔ سید منور حسن شاہ اور عمران خاں، نقارخانے میں دو طوطیوں کی آواز ہے۔ عوام چھوٹے چھوٹے نوازشریفوں اور زرداریوں کے نرغے میں ہیں۔ اچھے کارکن نمک حلالی تو کرتے ہی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ اپنا روزگار کون بند کرتا ہے۔ طے ہے کہ دو برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ تاہم جس برائی کی اب باری ہے وہ امریکہ کو پسند نہیں۔
وقت کتنا ظالم ہے کہ سب کچھ ایکسپوز کرتا جا رہا ہے۔ شمسی ائربیس کی کہانی سب پر کھل چکی ہے۔ امریکہ نے حکومت کے منہ پر وہ طمانچہ مارا ہے کہ شاید پورے دانت ہل گئے ہوں گے۔ نہیں، کیونکہ وہ عادی ہیں۔ جہاں جفت فروش وزیر دفاع ہوں اور ضمیر فروش وزیر داخلہ ہوں وہاں کیا کہا جائے۔ دیکھئے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ اب تو اُن پر سب کچھ منکشف ہو چکا ہے اس کے بعد بھی اگر وہ نہیں جاگتے تو جرم کا ارتکاب کریں گے۔ گناہ کا تصور تو اُن کی زندگیوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ تبھی تو یہ حالت ہوئی ہے۔ سردار آصف علی نے تو حد ہی کر دی۔
اُن کے بقول پالیسیاں غیرت پر نہیں قومی مفاد کے تحت بنتی ہیں۔ یہ فقرہ کوئی پہیلی نہیں۔ قوم کو ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنا ہی ہو گا کہ یہ اپنے مفادات کو قومی مفاد کہتے ہیں اور ان کے اپنے مفادات یقیناً غیرت پر مبنی نہیں ہیں۔
اس مرتبہ ہم نے شکر کیا تھا کہ الطاف بھائی نے زرداری صاحب سے ملاقات بھی نہ کی تھی اور باقی روابط میں منقطع ہوتے نظر آ رہے تھے کہ ”سرگرانی اور ہے“ والا معاملہ تھا۔ اب یوں نظر آنے لگا کہ ”کچے دھاگے سے بندھے آئیں گے سرکار دے“۔ مولانا فضل الرحمن، الطاف بھائی کے مزید قریب آ گئے کہ ”اپنے اپنے بے وفاﺅں نے کیا یکجا ہمیں“ مگر اب کے بے وفا بھی ایک ہے۔ وہی بے وفا جو نوازشریف کے لئے ہرجائی بھی رہا ہے۔ بظاہر ق لیگ کی لاٹری نکل آئی تھی کہ حکومت انہی کی اکیلی رسی پر ڈول رہی تھی۔ مگر چودھری صاحب بہت دور اندیش ہیں اس لئے انہوں نے متحدہ کو منانے کی کوشش کی کہ وہ اندر کی بات جانتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی پڑھے لکھے ہیں انہوں نے پڑھ رکھا ہے کہ جھاڑی میں بیٹھے ہوئے گیارہ پرندوں کی نسبت ہاتھ میں آیا ہوا ایک پرندہ ہی بہت ہے۔ اور جب پرندہ پاﺅں کے نیچے آیا ہو تو اندھا بھی بخت کا سکندر بن جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاستدان اس حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ جو کچھ لوٹنا ہے آج ہی لوٹ لو۔ اور یہ ایسے بدبخت ہیں پھل ہی نہیں پودے بھی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ گوشت نوچنے کے بعد آنے والے کے لئے ہڈی بھی نہ چھوڑی جائے۔ انہیں اس سے کیا عوام مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمیابی کے باعث مریض بن چکے ہیں اب وہ چیخنا بھی چاہتے ہیں تو ان کے حلق خشک ہو چکے ہیں۔
لے دے کے ایک امید کی کرن چیف جسٹس کی شکل میں نظر آئی تھی مگر یہاں حکومتی کرپشن کی تیرگی بہت زوردار ہے اور اس پر امریکی دہشت گردی کی آندھی۔ الاماں الاماں۔ چیف جسٹس صاحب نے تنگ آ کر صاف صاف کہہ دیا کہ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، عدالت نے جو بھی حکم دیا اسے حکومت نے پائمال کر دیا۔ حکومت نے ایسی اندھیر نگری مچا رکھی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کا تبادلہ معطل کر کے تفتیش سونپ دی ہے۔ مگر حکومت پھر کوئی نیا پینترا بدلے گی۔ وہ کسی محب وطن اور دیانتدار افسر کو نہیں چلنے دے گی۔
اصل میں حکومت کی بنیاد ہی این آر او پر ہے۔ پانی رڑکنے سے مکھن نہیں نکل سکتا۔ برائی کی بنیاد پر اچھائی کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ ٹیڑھی اینٹ پر رکھی ہوئی دیوار تاثر یا ٹیڑھی جائے گی۔ ایسی حکومت عوام کے لئے کیا سوچے گی جس کی ساری قوت عدلیہ سے بچاﺅ، اور امریکہ کو خوش کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔ جس کا سارا دھیان اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی طرف ہے یا اپنے حلیف نوازشریف کو چکر دینے کی طرف۔ سید منور حسن شاہ اور عمران خاں، نقارخانے میں دو طوطیوں کی آواز ہے۔ عوام چھوٹے چھوٹے نوازشریفوں اور زرداریوں کے نرغے میں ہیں۔ اچھے کارکن نمک حلالی تو کرتے ہی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ اپنا روزگار کون بند کرتا ہے۔ طے ہے کہ دو برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ تاہم جس برائی کی اب باری ہے وہ امریکہ کو پسند نہیں۔
وقت کتنا ظالم ہے کہ سب کچھ ایکسپوز کرتا جا رہا ہے۔ شمسی ائربیس کی کہانی سب پر کھل چکی ہے۔ امریکہ نے حکومت کے منہ پر وہ طمانچہ مارا ہے کہ شاید پورے دانت ہل گئے ہوں گے۔ نہیں، کیونکہ وہ عادی ہیں۔ جہاں جفت فروش وزیر دفاع ہوں اور ضمیر فروش وزیر داخلہ ہوں وہاں کیا کہا جائے۔ دیکھئے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ اب تو اُن پر سب کچھ منکشف ہو چکا ہے اس کے بعد بھی اگر وہ نہیں جاگتے تو جرم کا ارتکاب کریں گے۔ گناہ کا تصور تو اُن کی زندگیوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ تبھی تو یہ حالت ہوئی ہے۔ سردار آصف علی نے تو حد ہی کر دی۔
اُن کے بقول پالیسیاں غیرت پر نہیں قومی مفاد کے تحت بنتی ہیں۔ یہ فقرہ کوئی پہیلی نہیں۔ قوم کو ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنا ہی ہو گا کہ یہ اپنے مفادات کو قومی مفاد کہتے ہیں اور ان کے اپنے مفادات یقیناً غیرت پر مبنی نہیں ہیں۔