میرے موبائل کی گھنٹی بجی ”ہیلو“ ”جی“”سر! آپ نے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا بیان پڑھا؟“”کون سے والا“ ”وہی بیان جس میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے محکمے سے تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے“ ”جی پڑھا ہے“ ”کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ تنخواہ لئے بغیر وہ اپنا گھر کیونکر چلائینگے۔ بیوی کی فرمائشیں کہاں سے پوری کرینگے۔ بچوں کے معاملات کیونکر مان پائیں گے روزمرہ کے اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے۔ سوسائٹی میں موو کیسے کر سکیں گے کیونکہ سوسائٹی میں موو کرنے کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے دوا دارو کیسے پورا کرینگے گھر کا کچن کیسے چلائینگے۔ مراعات نہیں لیں گے تو گاڑیوں کا پٹرول کیونکر برداشت کر سکیں گے۔ یوٹیلٹی بلز کیسے اور کہاں سے ادا کرینگے“ ”میرے دوست، میرے بھائی! آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس خالق نے خواجہ سعد کو اندرون شہر کی تنگ و تاریک اور بدبودار گلیوں سے اٹھا کر ڈیفنس کا مکین بنا ڈالا جس مالک نے ایک سفید پوش کو پاکستان کا وفاقی وزیر بنا ڈالا اب وہی اللہ تنخواہ کے بغیر ہی اسکا کچن اور گھر بھی چلائے گا اور پہلے سے بہتر چلائے گا“”سر! لگتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو باپ کی وراثت سے اتنا کچھ مل چکا ہے کہ اب اسے تنخواہ جیسی حقیر چیز کی ضرورت نہیں“”نہیں دوست! آپ غلط سمجھ رہے ہیں خواجہ سعد رفیق ایک سفید پوش اور باضمیر سیاسی ورکر خواجہ رفیق شہید کا چشم و چراغ ہے جس کی پوری زندگی جمہوریت کے حصول اور دفاع کی تگ و دو میں گزری۔ وہ ایک جنونی انسان تھا اسے سیاست اور جمہوریت کیساتھ اتنا زیادہ عشق تھا کہ اپنے معصوم بچوں کے مستقبل کیلئے کچھ نہ بنا سکا۔ خود بھی مالی کسمپرسی میں زندگی گزاری اور دنیا سے جاتے وقت بھی اسکے اور اسکے گھر والوں کے ہاتھ خالی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست غریب اور سفید پوش لوگوں کے بس کا روگ نہیں، غریب اور متوسط طبقے کو آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا اور راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ خواجہ رفیق میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور حکمرانوں کو کھٹکنے لگے تھے لہٰذا حسب دستور انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ سلام بیوہ ہو جانے والی اس ماں کو جس نے ننھے سعد اور سلمان کو باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ دن رات محنت اور مشقت کرکے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور اس ادھورے مشن پر ڈال دیا جسے خواجہ رفیق ادھورا چھوڑ گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا استاد اور رہنما ہوتا ہے۔ حالات کے تھپیڑوں نے سعد کو شریف برادران کے باغیچے میں لا پھینکا اسی باغیچے نے سعد رفیق کی آبیاری کی اس دوران سعد کو کئی الزامات بھگتنا پڑے۔ بے شمار صعوبتیں سہنا پڑیں اور آج شریف برادران کے ساتھ وفاﺅں کا ثمر خواجہ سعد رفیق کو وفاقی وزارت کی صورت میں مل چکا ہے۔ ویسے بھی تو یہ سچ ہے کہ محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ محنت کا ثمر ایک نہ ایک دن مل کر رہتا ہے۔ آج خواجہ سعد رفیق اس مقام پر کھڑا ہے کہ تنخواہ اور مراعات سے بے نیاز ہے اسکے پاس اللہ کا دیا اتنا کچھ ہے جسے اسکی آئندہ نسلیں بھی استعمال کر سکتی ہیں“”سر! آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری ٹینشن دور کی میں مطمئن ہو گیا ہوں کہ خواجہ سعد رفیق تنخواہ اور مراعات کے بغیر بھی خوش رہ سکتا ہے سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا کچن چلتا رہے گا“یہ سچ ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو وزارت ریلوے دےکر اس کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جانے لگا ہے۔ کام میں سنجیدگی سعد کے بیانات اور اقدامات سے جھلک رہی ہے۔ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف سے لیکر انکے آخری وزیر تک ہر ایک کے چہرے سے سنجیدگی جھلک رہی ہے۔ حکومت کے بڑوں اور چھوٹوں کے چہروں کی سنجیدگی اس امر کی چغلی کھا رہی ہے کہ موجودہ حکومتی ٹیم پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو ضرور کنارے لگا دیگی۔محکمہ ریلوے کی اصلاح کے ضمن میں خواجہ سعد کی طرف سے اٹھائے گئے تقریباً تمام اقدامات قابل تعریف ہیں اور کبھی کبھی یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ درپردہ انہیں شیخ رشید احمد کی رہنمائی حاصل ہے۔ یہ ایک آزمودہ سچ ہے کہ اگر کپتان ایماندار اور تجربہ کار ہو تو نچلا طبقہ غلط اور سست کام کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ خواجہ سعد رفیق نے اچھا کیا کہ اوپر سے ہاتھ ڈالا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے محکمہ ریلوے سے تنخواہ اور مراعات نہ لینے کا اعلان کرکے خود پر خدائی خدمتگار (باچا خان والا نہیں) ہونے کی چھاپ لگوانے کی کوشش کی ہے۔ جس مقصد کیلئے انہوں نے تنخواہ اور مراعات کی قربانی دینے کا اعلان کیا ہے اللہ کرے وہ مقصد ضرور پورا ہو۔