کشمیر میں امن کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ بھی ناپیدہے ۔ ان میں اے سی ، بجلی کے میٹر اور موم بتی جیسی چیزیں بھی ہیں۔ وہاں کے سرد اور معتدل موسم میں اے سی کی ضروت نہیں ہوتی۔ہر گھر دو سو 30 روپے ماہانہ فکس میں بجلی استعمال کرتا ہے۔کچن اور گیزر بھی اسی میں چلتے ہیں۔دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ضرور ہوتی ہے۔اسکے باوجود وہاں موم بتی کا وجود نہیں ہے ۔ ضرورت پڑنے پر دیہات میں کشمیری” ثار“ کی ٹہنی توڑ کر جلا لیتے ہیں۔ دو اڑھائی فٹ شاخ رات بھر یہ شمع کی طرح خوشبو کے ساتھ جلتی رہتی ہے۔ ایسے درخت شاید دنیا میں کہیں نہیں۔اسی طرح پوری دنیا میں خوبصورتی اور قدرتی حسن کے حوالے سے کشمیر کی ایک امتیازی حیثیت ہے۔کشمیر کے دونوں حصے دلکشی ،سحر انگیزی اورحسن وجمال میں یکتا ہیں۔یہ نظارے کشمیر سے دور دور تک پاکستان میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات کو تھوڑا سا تراش لیا جائے اور ماحول کو سیاحوں کے مزاج کے مطابق بنا دیا جائے تو پاکستان کی معیشت کو یہی ایک انڈسٹری اوجِ ثریا تک پہنچا سکتی ہے۔ فرانس میں سالانہ دس کروڑ، امریکہ میں نوکروڑ سیاح تفریح کیلئے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں پُرامن دور میں سیاحوں کی تعداددس لاکھ سالانہ تک پہنچی ،اس میں بھی ہمارا کوئی کمال نہیں یہ لوگ پاکستان کے تاریخی مقامات اور دلفریب وادیوں ، برف پوش و سر سبزو شاداب پربتوں کے بارے میں دوسروں سے سن کے آئے ۔دہشتگردی کے خوف سے اب تعداد دس لاکھ سے کم ہو کر ہزاروں میں رہ گئی ہے۔گزشتہ دنوں ابصار عبدالعلی نے حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں سیاحت کے حوالے سے سیمینار منعقد کرایا جس میں مہمان خاص سلیم بخاری ،اوریا مقبول جان تھے ۔صدارت وزیر سیاحت و آثار قدیمہ رانا مشہود خان نے کی، تنویر جبار جنرل منیجر ٹور ز م پنجاب اور صحافی حسین دیگر مقررتھے۔سلیم بخاری صاحب نے معلومات کی برسات کردی۔اوریا صاحب نے سیاحت سے قبل تعلیم اور اردوکے فروغ پر زور دیا ۔ رانا مشہود اور تنویر جبار نے سیاحت کی ترقی کیلئے حکومتی کاوشوں کو اس طرح پیش کیا جس سے لگا کہ پاکستان دنیا کا نمبر ایک سیاحتی ملک بن چکا ہے۔خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے قدرت نے بے شمار رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا اور سیاحت کی مختلف النوع سیاحتی دلچسپیوں سے معمور کیا ہے۔ سمندری ساحلوں، پانچ دریاﺅں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، جنگلوں اور صحراﺅں سے بھرپور یہ ملک قدرت کے حسن کا جیتا جاگتا شہکار ہے۔جہاں قدرت کے چاروں موسم سرما، گرمی، بہار اور خزاں اپنی مکمل رعنائیوں کے ساتھ ملیں گے۔جب پنجاب میں لو چلتی اور حبس سے جان پہ بنی ہوتی ہے تو مری اور اوپر کے علاقے خوشگوار موسم سے لبریز ہوتے ہیں ۔زیادہ ٹھنڈ پسند کرنیوالے کنکورڈیا چلے جائیںجو برف پوش چوٹیوں کا سنگم ہے ۔ سیاحتی، تاریخی مقامات اورآثار قدیمہ کسی بھی ملک سے بڑھ کر پاکستان میں ہیں۔پھول برساتی اور شبنم میں نہاتی وادیوں میں سوات، ناران ، کاغان‘ سکردو، چترال، گلگت، ہنزہ ،زیارت ،کوئٹہ، مری اور کلر کہاراہل ذوق کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔کنکورڈیا جیسا علاقہ دنیا میں کہیں نہیں۔یہ گلگت بلتستان میں تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کا سنگم ہے ایک جاپانی سیاہ نے اپنی کتا ب: Pilgrimage to conkordia میں لکھا ” یہ مقام پوجا (حج)کے قابل ہے“۔ ہم پربتوں کے اس سنگم کی اہمیت سے نا بلد ہیں اس لئے یہ دنیا کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 پاکستان میں ہیں۔ دنیا میں دو قدیم ترین تہذیبو ں کے آثار دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ گندھارا اور انڈس ویلی کا پاکستان میں ہونا اسکی دنیا میں انفرادیت کا مظہر ہے۔26 جھیلیں 8ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر ہیں تو وہ پاکستان میں ہیں۔ قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتی جھیل سیف الملوک میں پریوں کا مسکن تسلیم کیا جاتا ہے۔نیاگرافال تو امریکہ ،کینیڈا میں ہے پاکستان میں لگتا ہے اس نے بچے جنم دیئے ہوئے ہیں۔شمالی علاقوں میں قدم قدم پر آبشاریں، جھرنے اور چشمے جادو نگری کا احساس دلاتے ہیں۔مکران کوسٹل ہائی وے اپنی مثال آپ ہے۔ ساڑھے چھ سو کلو میٹرطویل اور دلکش ساحل دنیا میں اور کہاںہوگا۔یہ دو رو یہ شاہراہ کراچی سے شروع ہو کر اورماڑہ اور پسنی سے ہوتی ہوئی گوادر پہنچتی ہے۔ اسکے ایک جانب بلوچستان کے صحرائی و پہاڑی علاقے ہیں اور دوسری طرف بحیرہ عرب کا نیلگوں پانی ٹھاٹھیں مارتا ہے۔کراچی سے گوادر تک ساحل سمندراور اسکے افق پر ہائی وے شفق کا عکس نظر آتی ہے۔صنوبر کا درخت چار سال میں ڈیڑھ انچ بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، یہ زیارت میں ہزار وں کی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ چھ سو فٹ کی اونچائی والے صنوبر عجوبے کم نہیں۔ پاکستان قدیم ترین تہذیبوں کا منبع ہے جبکہ کیلاش قوم کی حیثیت میں سکندر اعظم کے دور کی یاد گاریں اپنے لباس اور حسن کے شہکار ہیں۔ وادی بمرید اور رمبور وادیوں میں جانیوالے لوگ قدرتی نظاروں اور مقامی افراد کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔راکا پوشی کی چوٹی ہمیشہ بلا امتیاز کسی بھی موسم کے بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے۔چترال سے بارہ کلومیٹر کی دوری پر گرم چشمہ کے نام سے ایک جگہ جس کا پانی انتہائی سرد موسم میں گرم ہوتا ہے۔ اس میں ایک دفعہ نہانے والا جلدی بیماریوںسے نجات پالیتا اور اسکی ہڈیاں مضبوط ہو جاتی ہیں۔فیری میڈو کا ذکر نہ کیا جائے زیادتی ہو گی۔ سیاح جب اوپر نظر اٹھاتے ہیں تو درختوں کے جھرمٹ میں آسمان نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں صوفیا، اور اولیا کے مزارات مرجع خلائق ہیں۔ہر مذہب کی یادگاروں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ کراچی سے تخت بھائی میں بدھا کے مجسمے تک موجود ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں کے مساجد، مزارات، ہندوﺅں کے مندر، سکھوں کے گوردوارے اور بدھوں کے (وہار) سٹوپاز اور قدیم ترین چرچ ہیں جو اپنے پیرو کاروں کیلئے ہمیشہ سے توجہ اور دلچسپی کا مرکزرہے ہیں۔دبئی اپنے ریتلے صحراﺅں کو سفاری سپاٹ بنا کر سونا پیدا کررہا ہے ۔ پاکستان ہر طرح کی سفاری سے مالا مال ہے۔ تھرپارکر اور چولستان خوبصورت صحرا ہے جہاں دنیا کے خوبصورت اور نایاب جانور بھی پائے جاتے ہیں یہ علاقہ ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے۔کراچی سے 450 کلو میٹر کی مسافت پر خوبصورت مقام گورکھ ہل اسٹیشن ہے۔ سطح سمندر سے 5688 فٹ بلنداس علاقے کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 17 اور سردیوں میں کم ازکم منفی 5 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔سیاحت کے فروغ میں ہماری دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے ایئر پورٹ پرہر سیاح سے تین سو ڈالر فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ یہ بھارت میں 90ڈالر ہے۔ ٹورازم ایکٹ میں ”یہ کرو ‘ وہ نہ کرو “کے حوالے سے جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں انکے پیش نظر تو شاید ہی کوئی سیاح پاکستان کا رُخ کریگا ۔پاکستان میںایک ہاتھ سے فیس وصول کی جاتی ہے تو دوسرے سے سیاحوں کو کوڈ آف ڈریس تھما دیا جاتا ہے”ٹائٹ لباس نہیں پہننا یہ اشتعال کا سبب بنتاہے ڈھیلا لباس بھی نہیں پہننا اس سے جسمانی اعضا بے قابو ہوجاتے ہیں“۔سیاحت کیلئے علاقے کی خوبصورتی اور موسم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،وہاں تک پہنچنے کی سہولتیں بھی ضروری ہیںلیکن سب سے بڑھ کر امن کا ہونا لازم ہے۔اس طرف تھوڑی سی توجہ سے پاکستان ٹورزم میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے ۔
سیاحت
Jul 04, 2013