پاکستان کی سیاست کے حوالے سے برطانیہ کو ہمیشہ ہی سے خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ماضی میں ”لندن پلان“ جیسے منصوبے اور پھر چند سال قبل ”میثاق جمہوریت“ کا معاہدہ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں عوام کی حقیقی حکمرانی کی بجائے موروثی سیاست اور مخصوص خاندانوں کی اقتدار پر گرفت کو مضبوط بنانے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔ ”میثاق جمہوریت“ کے معاہدے نے پاکستان میں فزینڈلی اپوزیشن کی نئی روایت کو جنم دیا حد تو یہ ہے کہ NROکے معاہدے نے کرپشن کو ڈھال فراہم کر کے تمام کرپٹ حکمرانوں کو امین و صادق بنا دیا۔ جنرل ضیاالحق مرحوم کے مارشل لاءنے پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرعتاب رہنماﺅں اور کارکنوں کو برطانیہ کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں آباد ہونے کی راہ ہموار کی۔ آج ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن مارشل لاءدور کی چیرہ دستیوں سے تنگ آ کر یہاں آباد ہو چکے ہیں اور اب یہاں کے باقاعدہ شہری بن چکے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو لندن کی کھلی اور آزاد فضا میں ملک کی سیاست میں جوڑ توڑ اور اقتدار کی بندر بانٹ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ قومی خزانے سے لُوٹا ہوا سرمایہ بھی برطانوی بینکوں میں محفوظ کروانے اور یہاں اثاثے بنانے کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ آج لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کا معاملہ اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعت جو کہ اپنے آپ کو نچلے طبقے کے لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے کی بات کرتی ہے غریب اور متوسط طبقے کی اس جماعت کے قائد اور دیگر رہنماﺅں کے خلاف منی لانڈرنگ کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اپنی جگہ ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے لیکن اب اس کے تانے بانے جس جانب جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا انتہائی سنجیدہ ایشو بن چکا ہے جو کہ ایم کیو ایم کے لئے واقعی ایک بڑا چیلنج ہے اس قتل کے حوالے سے لندن میٹروپولیٹن پولیس نے اپنا تحقیقاتی دائرہ وسیع کرتے ہوئے رفتہ رفتہ ایم کیو ایم کے انتہائی اہم رہنماﺅں کی جانب کر دیا ہے۔ گو کہ خود لندن کی پولیس نے ابھی تک واضح الفاظ میں ایم کیو ایم کے کسی خاص اور اہم رہنما کو اس قتل کا نہ تو ذمہ دار ابھی تک ٹھہرایا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کیس میں باضابطہ طور پر مشکوک قرار دیا ہے لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب میٹروپولیٹن پولیس نے اپنی تحقیقات میں لانڈرنگ کے ایشو کو بھی شامل کر لیا ہے۔ منی لانڈرنگ کا ایشو بڑا دلچسپ ہے کیونکہ گذشتہ چند سالوں سے لندن میں بعض ایسے گروپس سرگرم عمل رہے ہیں جو کہ خاص طور پر کراچی میں کسی نہ کسی حوالے سے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ جن میں بھتہ گروپ، قبضہ گروپ، ڈرگ مافیا اور اغواءبرائے تاوان کے واقعات میں ملوث عناصر لندن میں مخصوص سیاسی گروپس کی چھتری میں تحفظ حاصل کرتے رہے ہیں اور آزادانہ طور پر جنوبی افریقہ، دوبئی، سنگا پور کے علاوہ بھارت بھی آتے جاتے رہے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض عناصر مختلف ناموں سے بوگس پاسپورٹ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کا علم سابق حکومت کے قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک کے علم میں یقیناً ہے۔ اس ضمن میں اب مصدقہ اطلاعات ہیں کہ یہاں لندن میں برطانوی اداروں کو بعض ایسے شواہد بھی ہاتھ لگے ہیں جن میں پاکستان کی بعض سیاسی پارٹیوں کے ملوث ہونے کا بھی اشارہ ملتا ہے برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے مقدمات کو انتہائی سنجیدہ قرار دیا جاتا ہے اور اس کی برطانوی قوانین میں سخت سزا ہوتی ہے۔ 1978ءمیں وجود میں آنے والی ایم کیو ایم اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ماضی میں کراچی کی حد تک اس پارٹی کی مقبولیت کے باوجود اس پر بے پناہ الزامات لگتے رہے ہیں۔ کارکنوں سے لے کر رہنماﺅں کے قتل اور حکیم سعید کے افسوسناک قتل کے علاوہ بے شمار دیگر شخصیات کے قتل کے حوالے سے انگلیاں ایم کیو ایم ہی پر اٹھتی رہی ہیں۔ بھتہ مافیا، پرچی مافیا اور بوری بند لاشوں جیسے واقعات یہ سب کچھ کراچی کی سیاست میں خوفناک صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ 1991ءمیں اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی نے الطاف حسین کو کراچی سے لندن روانہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ ان دنوں آرمی چیف جنرل راجہ آصف نواز جنجوعہ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر وہاں آٰپریشن کرنے والے تھے اس کے بعد کراچی میں فوجی آپریشن ہوا۔ 1993ءاور 1995ءمیں بھی پولیس آپریشن ہوا لیکن اس عرصے کے دوران الطاف حسین لندن میں سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کے بعد 1999ءمیں برطانوی شہریت حاصل کر چکے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے برطانیہ سے واپس پاکستان لانے کے لئے بھرپور کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ہو سکی۔ کیونکہ برطانوی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک ان کی سرزمین پر کوئی جرم نہ کرے وہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتے لیکن اب تمام صورت حال بدل چکی ہے۔ الطاف حسین خود اپنے تازہ خطاب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان حالات میں اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب لندن میں ایم کیو ایم کے حوالے سے صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ دوسری جانب الطاف حسین نے خود برطانوی حکومت کو یہ وارننگ دے کر اپنا کیس کمزور کر لیا ہے اور لگتا ایسا ہے کہ برطانوی حکومت کے پاس یقیناً کوئی ایسا مواد ہے جو کہ اب ایم کیو ایم کے خلاف راہ ہموار کر رہا ہے۔ الطاف حسین نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ لندن پولیس ان کے گھر کی تلاشی کے دوران کئی اہم دستاویزات بھی اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ برطانیہ میں جیسا کہ قوانین انتہائی سخت ہیں بغیر کسی سرچ وارنٹ کے گھر میں پولیس کا داخلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اور پھر بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی برطانوی شہری کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع ہی نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی وجہ ابھی تک راز بنی ہوئی ہے۔ یہ قتل مالی معاملات کی بنا پر ہوا یا پھر کوئی اور محرکات ہیں؟ یہ تو آئندہ چند روز میں سامنے آ جائے گا۔ کہ آخر اس قتل کی اصل وجہ کیا تھی؟ لیکن اب اتنا ضرور ہے کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے کارکنوں میں خود بے پناہ سوالات جنم لے رہے ہیں اور ایم کیو ایم کا مرکزی سیکرٹریٹ جو کہ ماضی میں ایم کیوایم کی سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے اب یہاں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے دور میں قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک کا طریقہ کار جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ کچھ اس طرح کا رہا ہے کہ کراچی میں خاص طور پر لیاری کے علاقے میں مختلف مافیاز کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی کہ وہ برابر اقتدار کی کشتی میں برابر سوار رہ کر وفاق اور صوبہ سندھ میں حکومت کا دست و بازو بن کر اقتدار کو مضبوط بنائے رکھیں۔ یہ کس قدر گھناﺅنا جرم ہے کہ خود قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان جرائم پیشہ عناصر کو شریک اقتدار کئے رہے اور پھر لندن میں رحمن ملک نے اپنی وزارت داخلہ کے دور کے دوران ریکارڈ سطح پر الطاف حسین سے ون آن ون ملاقاتیں کیں اور اندر کھاتے اقتدار کو مضبوط کرنے اور حکومت کے اتحاد میں شامل رہنے کی منصوبہ بندی میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کو نظر انداز کئے رکھا، گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان سے باہر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے مختلف دھڑوں نے جو کردار ادا کیا ہے۔ اس نے پاکستان کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور اور بدنام کیا ہے۔ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے حوالے سے منی لانڈرنگ کا کیس ہو یا ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل۔ یہ تمام واقعات پاکستان کے لئے باعث ندامت بھی ہیں اور پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہیں کہ کیا بیرونی ممالک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا وجود پاکستان کے مفاد میں ہے؟
بیرون ملک پاکستانی سیاسی پارٹیوں کا وجود.... لمحہ فکریہ!
Jul 04, 2013